• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 173693

    عنوان: صرف دعا کے نام پر مستورات کو کسی گھر میں جمع کرنے کا حکم

    سوال: اجتماعی دعا گھرکے اندر کرانا کیسا ہے؟ مثلاً جیسے کہ کافی تعداد میں خواتین اکٹھا ہو کر اجتماعی دعا کرتی ہیں اس دعا میں خواتین حدیث پاک پڑھتی ہیں ، نبی اور صحابہ کے قصے پڑھتی ہیں، پھر بعد میں دعا ہوتی ہے، اب یہ ایک روایت بن چکی ہے، مجھے اس بار ے میں فتوی چاہئے کہ کیا اس طرح دو دن بعد یا تین بعد خواتین کا اس طرح اجتماعی دعا کرنا کہاں تک جائز ہے؟ اور پہلے لاؤڈ اسپیکر میں اس دعا کو لے کر اعلان کیا جاتاہے کہ خواتین فلاں شخص کے گھر اکٹھا ہو جائیں وہاں اجتماعی دعا ہوگی، یہ اعلان کرنا اور دو یا تین دن بعد یہ اجتماعی دعا کرنا جائز ہے؟ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 173693

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:86-99/N=2/1441

    دعا وٴں میں اصل سر واخفا اور انفرادیت ہے؛ لہٰذا اجتماعی دعا صرف خاص مواقع پر ہونی چاہیے جب کہ سب کا مقصد ایک ہو یا کوئی اہم مصلحت داعی ہو، عام حالات میں ہر شخص کو الگ الگ سری دعا کرنی چاہیے۔ اور آج کل تو اجتماعی دعا ایک رسم بنتی جارہی ہے اور لوگ صرف دعا کے نام پر دعا کرانے کے لیے یا دعا میں شرکت کے لیے مدعو کیے جاتے ہیں، جس کا خیر القرون سے کچھ ثبوت نہیں؛ لہٰذا آپ کے یہاں یا کسی اور جگہ دعا کے نام پر خواتین کو جو جمع کیا جاتا ہے، یہ امر منکر ہے، اس سے احتراز کیا جائے؛ البتہ کسی باپردہ گھر میں محلہ کا مختصر اجتماع ہو، جس میں آس پاس کے گھروں کی مستورات جمع ہوجائیں اور کسی معتبر کتاب سے کچھ دینی باتیں سنادی جائیں، پھر ہر شخص انفرادی طور پر دعا کرلیا کرے اور کبھی حسب موقع اپنے لیے اور امت کے لیے جہری دعا کرادی جائے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ بس اس کا خیال رکھا جائے کہ جہری دعا کا التزام واہتمام نہ ہواور صرف دعا کے نام پر لوگوں کو جمع بھی نہ کیا جائے؛ بلکہ اصل دینی مذاکرہ یا دینی تعلیم کے نام پر جمع کیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند