• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 172496

    عنوان: اگر شوہر واجبی نفقہ ادا نہ كرے تو كیا عورت تعلیم دینے جاسكتی ہے؟

    سوال: میری شادی کو دس سال ہوچکے ہیں۔ ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ میں نے ماسٹرز تک تعلیم حاصل کی ہے ۔ میرے گھر والے پڑھے لکھے اور اچھے علاقے میں رہتے ہیں۔ یہ شادی میں نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف کی تھی کیوں کہ میرے شوہر جس اسکول میں میں پڑھتی تھی وہاں ٹیچر تھے اور میرے مقابلے میں ہر طرح سے کم تھے۔ شادی کے ایک سال بعد میرے گھر والوں نے ہمیں قبول کرلیا اور ہمارا آنا جانا شروع ہوگیا لیکن ان کو میرے گھر والے ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ شادی کے فوراً بعد میرے شوہر پر سے محبت کا بھوت اتر گیا اور انھوں نے 4 مہینے تبلیغ میں لگا کرساری شریعت مجھ پر نافذ کرکے ہر وہ دکھ مجھے پہنچایا جو ایک مرد کسی عورت کو پہنچا سکتا ہے۔ مار پیٹ، گالم گلوچ، طلاق کی دھمکیاں دے کے مجھے غلام بنانے کی بھرپور کوشش کی ۔ شادی کے بعد نوکری چھوڑ دی ۔ پھر میں نے اپنے بھائی سے رقم ادھار لے کر انکو دی اور ہم نے ایک اسکول چلانا شروع کردیا جس کے یہ پرنسپل تھے۔ وہاں بھی دو بار انھوں نے ٹیچرز کے ساتھ چکر چلائے اور ہمیشہ مجھے کمتر ثابت کرکے ذلیل کیا ۔ اسکول کے سارے کاموں کو بوجھ بھی مجھ پر تھا۔ انھوں نے شام میں ٹیوشن پڑھانے پر بھی مجھے مجبور کیا۔وہ مجھے میکے جانے نہیں دیتے تھے اور نہ جیب خرچ دیتے اور خود سوائے لبادے کے شریعت کے سارے احکامات سے دور تھے۔آخری بار بہت ہی معمولی بات پر ایک طلاق دے کر مجھے یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ اسکو بولو یہاں سے چلی جا? ورنہ تینوں طلاق دے کر فارغ کردوں گا۔ جب میں نے جانے کی تیاری شروع کی تو بچوں کو لے کر گھر سے غائب ہوگئے۔ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ میکے آگئی۔ میں نے اپنے گھر والوں کو کبھی اپنے معاملے میں شامل نہیں کیا تھاکیوں کہ مجھے ڈر تھا کہ طلاق نہ ہوجائے لیکن ان کے بڑھتے ہوئے ظلم و ستم نے میری برداشت کی حدیں ختم کردیں ۔ میرے میکے آنے کے 15 روز بعد انھوں نے مجھے واپس آنے کو کہا اور معافی بھی مانگی لیکن میرا دل نہیں مان رہا۔ میں نے ان کو کہا کہ میری یہ شرائط ہیں جنھیں آپ پورا کریں گے تو میں آوٴں گی۔ جس میں سے: 1) مجھے کبھی مار پیٹ نہیں کریں گے اور مجھے اور میرے گھر والوں کو گالیاں نہیں دیں گے۔ مجھے میکے جانے سے نہیں روکیں گے۔ اس پر انکا کہنا ہے کہ میکے جانے کی اجازت کبھی کبھار ہو گی لیکن وہاں رکنے کی نہیں۔ 2) اسکول بند کرکے یا بیچ کر کوئی نوکری کریں کیوں کہ اسکی وجہ سے بہت قرضے بڑھ گئے ہیں اور جو آتا ہے اسی پر لگ جاتا ہے۔ لیکن یہ کسی بھی صورت نوکری کرنے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ 3) جس علاقے میں میرا میکہ ہے وہاں گھر کرائے پر لیں کیوں کہ یہ ماحول اور تعلیم کے حساب سے اچھا علاقہ ہے ۔ اگر یہ نوکری کرلیں تو اس علاقے میں گھر کرائے پر لینا کوئی مہنگا نہیں۔ میں نے ان کو یہ بھی کہا کہ میں پردے میں رہ کر لڑکیوں کے اسکول میں پڑھالوں گی تو آپ کی مالی معاونت بھی ہوجائے گی۔ لیکن یہ اس علاقے میں آنے پر راضی نہیں۔ 4) میرا اور بچوں کا ماہانہ دس ہزار خرچہ دیں۔ اسکول بیچنے اور گھر کرایا پر لینے کے لیے انھوں نے ایک سال کا وقت مانگا ہے جو میں نے دے دیا ہے۔ میرے گھر والے بھی مجھے وہاں بھیجنے پر راضی نہیں۔آپ سے اس معاملے میں مشورے اور رہنمائی کی غرض سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا میں ٹھیک کر رہی ہوں اور مزید مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں ایسے شخص پر دوبارہ اعتبار کرکے اسکے ساتھ کیسے رہنا شروع کردوں کیوں کہ جب تک اسکول کی چھٹیاں تھیں تب تک انھوں نے بہت معافیاں مانگی اور اپنی محبت کا یقین دلاکر مجھے واپس بلانے کی سر توڑ کوشش کی۔ لیکن جب اسکول کھل گئے تو اب یہ خاموش سے ہوگئے ہیں نا بلاتے ہیں نا محبت کے دعوے کرتے ہیں۔ کیا مجھے ایک سال تک انتظار کرنا چاہیے؟ چوں کہ میرے والد حیات نہیں اور بھائیوں کی بھی تنخواہیں معمولی ہیں تو کیا میں اس عرصے میں اپنے اخراجات کے لیے پردے میں رہ کر لڑکیوں کے اسکول میں نوکری کر سکتی ہوں شوہر کی اجازت کے بغیر؟ ابھی تک میرے گھر والوں نے وہاں جاکر کوئی بات نہیں کی نا وہاں سے آکر کسی نے کوئی بات کی۔ بچوں کا آنا جانا چل رہا ہے۔ کیا میرے گھر والوں کو وہاں جانا چاہیے بات کرنے یا خاموشی سے انتظار کرنا چاہیے؟ میرے گھر والے کہتے ہیں کہ اگر وہ تمہاری شرائط پوری کرے گا تو اس کا مطلب ہے اس کو تمہاری فکر ہے ورنہ وہ اپنے مطلب کے لیے تمہیں بلا رہا ہے۔

    جواب نمبر: 172496

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1211-166T/D=12/1440

    (۱) (الف) صورت مسئولہ میں شوہر نے جو ایک بار طلاق دیا تھا اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی جس میں عدت کے اندر شوہر کو رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے کیا شوہر نے زبان سے یا فعل سے رجوع کر لیا تھا (زبان سے رجوع یہ ہے کہ: کہہ دے : میں نے رجوع کیا، تم میری بیوی ہو وغیرہ۔ فعل سے رجوع کا مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی کے تعلق والا کوئی فعل مثلاً بوس و کنار عدت کے اندر کر لیا) اگر شوہر نے ایسا کر لیا تو رجوع صحیح ہوگیا اور نکاح بدستور قائم اور باقی ہے اور اگر عدت کے اندر رجوع نہیں ہو سکا توعدت کے بعد طلاق بائنہ ہوگئی جس میں رشتہ نکاح ختم ہو جاتا ہے لیکن اگر باہمی رضامندی سے دونوں تجدید نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں اور عورت کو یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو کسی دوسرے مرد سے نکاح کرلے۔

    (ب) آپ کی طرف سے مار پیٹ گالی گلوچ کے روکنے کی شرط لگانا جائز اور درست ہے۔

    (۲) اسکول بیچ کر نوکری کرنے کی شرط مشورے کے درجہ میں ہو سکتی ہے جسے انہیں منظور کر لینا چاہئے یا پھر کسی دوسرے طریقے سے آپ کے اور بچوں کے لئے نفقہ کا انتظام کریں؛ کیونکہ نفقہ (کھانا کپڑا اور مکان ) کا انتظام کرنا ان کے ذمہ واجب ہے اور یہ حقوق العباد میں سے ہے جس میں کوتاہی کرنے کی صورت میں آخرت میں سخت گرفت ہوگی۔

    (۳) یہ باتیں مشورے کے درجے میں ہوں گی اگر وہ مان لیں تو بہتر ہے تاکہ آپ کے پیش نظر جو مصلحتیں ہیں وہ پوری ہو سکیں؛ لیکن کسی بڑے ضرر کے خطرے کے بغیر آپ اس پر اصرار نہیں کر سکتے۔

    (۴) خوش اسلوبی سے ایک ساتھ رہنے کی راہ نکالیں اور شوہر کو بچوں کے تئیں اپنی ذمہ داری کا احساس دلائیں تاکہ ان کی پرورش و تربیت سے وہ غفلت نہ برتیں۔

    اگر شوہر واجبی نفقہ ادا نہیں کرتے تو مجبوری میں پردے کے اہتمام کے ساتھ آپ لڑکیوں کی تعلیم دینے جا سکتی ہیں بشرطیکہ

    (الف) اجنبی مردوں کے ساتھ اختلاط کی نوبت نہ آئے۔

    (ب) زیب و زینت استعمال کرکے نہ جائیں۔

    (ج) سادہ لباس میں جائیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند