• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 171218

    عنوان: ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا حکم

    سوال: ایک مسئلہ معلوم کرنا تھا کہ ایک خاتون کے آنتوں کا آپریشن ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ اب اس حالت میں ہے کہ حمل نہیں ٹھہر سکتا تو کیا وہ شوہر بیوی بے بی ٹیوب(baby tube) کے ذریعہ بچہ پیدا کرسکتے ہیں؟ بے بی ٹیوب کا مطلب یہ ہے کہ شوہر بیوی کی منی ایک مشین میں ڈال دیتے ہیں اور بچہ مشین میں تیار ہوتاہے اس میں کوئی بھی گنجائش ہو تو بتائیں۔

    جواب نمبر: 171218

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:907-110T/N=11/1440

    حصول اولاد کے لیے میاں بیوی کا نطفہ اور بیضہ آپس میں ملاکر مشین میں پھر عورت کی بچہ دانی میں رکھنے کا طریقہ اختیار کرنا بھی اسلام میں جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ حصول اولاد کا یہ ایک غیر فطری طریقہ ہونے کے علاوہ احکام شرع کی رو سے اس میں درج ذیل ۲/ اہم خرابیاں پائی جاتی ہیں:

    پہلی خرابی: ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے اس طریقہ کار میں ڈاکٹر عورت کی شرمگاہ میں جب مخلوط مادہ رکھتا ہے تو اس میں ضرورت شرعیہ کے بغیر عورت کی جانب سے اجنبی مرد یا اجنبیہ عورت کے سامنے شرمگاہ کھولنا ہوتا ہے اور ڈاکٹر لوگ اسے دیکھتے ہیں اور اس میں ہاتھ بھی لگاتے ہیں ، جو شریعت اسلام میں ضرورت واضطرار کے علاوہ عام حالات میں بلا شبہ ناجائز وحرام ہے۔ اور حصول اولاد کی یہ کوشش شرعی اعتبار سے ضرورت کے دائرہ میں نہیں آتی ؛ کیوں کہ یہ جلب منفعت کی شکل ہے ، دفع مضرت یا علاج ومعالجہ کی شکل نہیں ہے؛ اس لیے جب اس طریقہ کار میں کشف عورت وغیرہ لازمی ہے تو شرعاً حصول اولاد کے لیے یہ صورت اختیار کرنا جائز نہ ہوگا۔

    ولا یجوز لھا أن تنظر ما بین سرتھا إلی الرکبة إلا عند الضرورة، بأن کانت قابلة فلا بأس لھا أن تنظر إلی الفرج عند الولادة، وکذا لا بأس أن تنظر إلیہ لمعرفة البکارة في امرأة العنین، والجاریة المشتراة علی شرط البکارة إذا اختصما، وکذا إذا کان بھا جرح أو قرح في موضع لا یحل للرجال النظر إلیہ فلا بأس أن تداویھا، إذا علمت المداومة، فإن تعلم تتعلم ثم تداویھا، فإن توجد امرأة تعلم المداومة ولا امرأة تتعلم وخیف علیھا الھلاک أو بلاء أو وجع لا تحملہ یداویھا الرجل، لکن لا یکشف منھا إلا موضع الجرح ویغض بصرہ مااستطاع (بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع،۲:۴۹۹،ط: مکتبة زکریا،دیوبند)۔(کتاب الاستحسان، ۶: ۴۹۹، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

    ومثلہ فی الدر والرد (کتاب الحظر والإباحة فصل فی النظر والمس ۹:۵۳۲،۵۳۳ط مکتبة زکریا دیوبند)، وملتقی الأبحر، ومجمع الأنھر، والدر المنتقی (۴:۱۹۹،۲۰۰ط دار الکتب العلمیة، بیروت)، والفتاوی الھندیة (۵:۳۳۰،ط:المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، والمختار والاختیار لتعلیل المختار (۴:۱۰۸،۱۰۹ط دار الکتب العلمیة، بیروت)، وتبیین الحقائق (۶:۱۷،۱۸،ط: الممکتبة الإمدادیة ملتان)، والموسوعة الفقہیة (۴۰:۳۶۶-۳۶۸) وغیرھا من کتب الفقہ والفتاوی۔

    ذکر شمس الأیمة الحلواني رحمہ اللہ تعالی في شرح کتاب الصوم أن الحقنة إنما تجوز عند الضرورة ، وإذا لم یکن ثمة ضرورة ولکن فیھا منفعة ظاھرة بأن یتقوی بسببھا علی الجماع لا یحل عندنا………کذا فی الذخیرة (الفتاوی الھندیة (۵: ۳۳۰، ط:المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، ومثلہ في رد المحتار(کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس،۹:۵۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند) وغیرہ۔

    دوسری خرابی: حصول اولاد کے اس طریقہ کار میں میاں بیوی اپنی منی یا بیضہ ان لوگوں کی تحویل میں دیتے ہیں، جن کے پاس اس کام کے لیے آئی ہوئی بہت سی منیاں اور بیضے ہوتے ہیں، جس میں اس بات کے احتمال سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ ان جمع شدہ منیوں اور بیضوں میں رد وبدل کردیا جائے یا ہوجائے ،یا کسی مرد یا عورت کی منی یا بیضہ کا کچھ حصہ بچاکر کسی دوسرے کے کام میں لایا جائے وغیرہ؛کیوں کہ وہ لوگ دین دار اور احکام شرع سے واقف نہیں ہوتے، نیز شریعت میں نسب کے باب میں جو نزاکت ہے،وہ لوگ اس سے بھی واقف نہیں ہوتے ؛ جب کہ اللہ رب العزت کی طرف اس باب میں اس درجہ نزاکت ہے کہ اللہ تعالی نے استقرار حمل کا جو طریقہ مقرر فرمایا ہے کہ اس میں خود میاں بیوی بھی اپنی منی اور بیضہ کو اور ان کے باہمی اختلاط کو نہیں دیکھتے، چہ جائیکہ کسی غیر مرد یا عورت کا اس میں کوئی عمل دخل ہو یا منی اور بیضہ ان کی تحویل میں جائیں۔

    اور اگر حصول اولاد کے لیے شوہر کے علاوہ کسی اور مرد کا نطفہ لیا جائے یا اس کے لیے بیوی کے علاوہ کسی اور کی کوکھ استعمال کی جائے تو اس میں درج بالا دو اہم خرابیوں کے علاوہ اجنبی مرد کے نطفے یا کوکھ سے ناجائز وحرام استفادہ بھی ہوگا، جو مذہب اسلام میں قطعی طور پر حرام وناجائز ہے۔

    خلاصہ یہ کہ دور حاضر میں حصول اولاد کے لیے مصنوعی طریقہ تولید یعنی: ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی جو شکلیں رائج ہیں، مذہب اسلام میں وہ سب ناجائز ہیں، ان میں سے کوئی شکل طریقہ جائز نہیں ہے۔ہمارے اکابر علمائے دیوبند کی یہی رائے ہے۔ ملاحظہ فرمائیں فتاوی محمودیہ (۱۸: ۳۲۲-۳۲۷، سوال: ۸۸۳۲- ۸۸۳۴، مطبوعہ: ادارہ صدیق، ڈابھیل)، فتاوی رحیمیہ (۵:۴۸۴، مطبوعہ:مکتبہ احسان دیوبند،۱۰: ۱۷۹، مطبوعہ:دار الاشاعت، کراچی)،احسن الفتاوی (۸: ۲۱۵،مطبوعہ:دار الاشاعت دیوبند)،منتخبات نظام الفتاوی( ۱: ۳۳۷،۳۳۹،مطبوعہ:ایفا،پبلی کیشنز،دہلی) اور محمود الفتاوی (۴: ۷۲۲، ۷۲۳) وغیرہ۔

    لہٰذا آپ لوگ علاج اور دعا جاری رکھیں ، ممکن ہے کہ اللہ تعالی عورت کو استقرار حمل کے قابل بنادیں یا اولاد کے لیے دوسرا نکاح کرلیا جائے یا صبر کیا جائے؛ کیوں کہ اللہ اپنے بہت سے بندوں کو اپنی حکمت ومصلحت کی بنیاد پر اولاد کی نعمت نہ دے کر صبر کا موقعہ عطا فرماتے ہیں؛ تاکہ وہ صبر کے ذریعہ اللہ کا قرب ونزدیکی حاصل کریں۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے: یھب لمن یشاء إناثا ویھب لمن یشاء الذکور ویجعل من یشاء عقیماً إنہ علیم قدیر۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند