• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 170296

    عنوان: مدرسة البنات میں عورتوں کے لیے اجتماعی اعتکاف کا حکم

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین وراہنمایان امت مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں ؟ ضلع پرکاشم اونگول صوبہ آندھراپردیش میں ایک اقامتی نسوان مدرسہ محسنہ کے نام سے قائم ہے اور ماہ رمضان میں بہت سارے خواتین اخیر عشرہ کا مسنون اعتکاف کی نیت سے مدرسہ میں آتی ہیں اور مسنون اعتکاف میں بیٹھتی ہیں کیا از روئے شرع مستورات کا مسنون اعتکاف کی نیت سے گھر سے نکل کر مدرسہ میں اعتکاف میں بیٹھنا کیسا ہے ؟ جہاں تک مستفتی راقم الحروف کا خیال : کتب فقہ میں عورت کے اعتکاف کے بابت ایک اصول یہ لکھا ہے : چنانچہ علامہ علاء الدین کاسانی (بدائع الصنائع ۸۱/۳، دارالحدیث القاھرہ ) میں" کتاب الأصل للشیبانی " کے حوالہ سے لکھتے ہیں ( وأما المرأة فذکر فی الأصل أنہا لا تعتکف إلا فی مسجد بیتہا ولا تعتکف فی مسجد جماعة ) . مذکورہ صاحب بدائع کی عبارت سے یہ پتہ چلا کہ عورت گھر کی مسجد میں اعتکاف کرے ۔ لیکن اس بات کی صراحت کہ" گھر کی مسجد سے مراد وہ گھر ہے جس میں ہمیشہ رہتی ہو " بندہ کو نظر نہیں آیا ، لہذا لفظ " بیت " مطلق ہے " والمطلق یجری علی اطلاقہ " کے ضابطہ کے سبب مستورات کا نسوان مدرسہ میں کسی ایک جگہ کو پنج گانہ نمازوں کی ادائیگی کے لیے متعین کرکے اس جگہ اعتکاف کرنا درست ہوگا کیونکہ لفظ " بیت " مدرسہ کو بھی شامل ہے تاہم عورت کے حق میں پردہ کی خصوصی رعایت رکھی گئی ہے ، اسی لیے عورت کو گھر سے بلاضرورت نکلنے کو ممنوع قرار دیا ، نیز عورت کا گھر میں نماز پڑھنے سے کوٹھڑی میں نماز پڑھنا افضل ہے ، اس لیے مستورات کے لیے گھر سے دوسرے گھر (چاہے مدرسہ ہو یا کسی رشتہ دار کا گھر ہو ) جانا نفس خروج منع ہوگا مگر اعتکاف کی سنیت ادا ہوجائے گی اور سنت کا ثواب ملیگا اس لیے کہ کتب فقہ میں صرف " مسجد بیتھا " مذکور ہے اور لفظ بیت ہر گھر اور جگہ کو شامل ہے لہذا نفس اعتکاف کی صحت میں کوئی اشکال نہ ہونا چاہیے لیکن عورت کے لیے گھر سے بلاضرورت نکلنا درست نہ ہوگا ۔ اب آپ ہماری رہبری فرمائیں کہ کیا مستورات کا مسنون اعتکاف کی نیت سے نکلنا درست ہے یا نہیں ؟ نیز ان مستورات کا اعتکاف صحیح ہوگا یا نہیں اور سنت کا ثواب ملیگا یا نہیں ؟

    جواب نمبر: 170296

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:801-137T/N=12/1440

    کتاب الاصل اور دیگر کتب فقہ میں عورت کے اعتکاف کی بابت مطلق بیت کا لفظ نہیں آیا ہے؛ بلکہ ”بیتھا“ کا لفظ آیا ہے، یعنی:عورت اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرے گی؛ لہٰذا ”بیتھا“کی صراحت کے باوجود محض لفظ بیت کو مطلق گردان کر اُسے مدرسہ وغیرہ ؛ بلکہ ہر جگہ کو عام ماننا درست نہ ہوگا؛ بلکہ مدرسہ وغیرہ پر بیت یا گھر کا اطلاق نہ از روئے لغت درست ہے اور نہ عرف اس کی اجازت دیتا ہے؛ کیوں کہ مدرسہ میں طلبہ یا طالبات کا تعلیم کی غرض سے محض عارضی قیام ہوتا ہے۔ اور اگر عارضی رات گذارنے کی جگہ بھی بیت ہو تو مسافرین کے لیے ہوٹل اور ٹرین میں اے سی فسٹ وغیرہ کا ڈبہ بھی بیت ہوجائے گا؛ جب کہ یہ خلاف بداہت ہے؛ لہٰذا کسی مدرسة البنات میں عورتوں کے اعتکاف کے سلسلہ میں آپ کے استدلال سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے بعد آپ کے سوالات کے جواب بالترتیب حسب ذیل ہیں:

    (۱): مستورات کا مسنون اعتکاف کی نیت سے گھر سے نکلنا اور کسی مدرسة البنات میں جاکر اعتکاف کرنا اسی طترح مکروہ وممنوع ہوگا، جیسے: مستورات کا گھروں سے نکل کر مساجد میں جاکر اعتکاف کرنا مکروہ وممنوع ہے۔

    ولاتعتکف المرأة إلا في مسجد بیتھا ولا تعتکف في مسجد جماعة (کتاب الأصل (کتاب الصوم، باب الاعتکاف۲: ۱۸۴، ط وزارة الأوقاف والشوٴون الإسلامیة، قطر)۔

    وقال الحافظ في فتح الباري ناقلاً لمذھب الحنفیة:وشرط الحنفیة لصحة اعتکاف المرأة أن تکون فی بیتھا، وفي روایة لھم أن لھا الاعتکاف فی المسجد مع زوجھا، وبہ قال أحمد ( فتح الباري، ۴: ۳۵۰ط دار السلام، الریاض)۔

    وقد اختلف الفقہاء فی موضع اعتکاف النساء؛فقال أبو حنیفة وأبو یوسف ومحمد وزفر:لا تعتکف المرأة إلا فی مسجد بیتہا، ولا تعتکف فی مسجد جماعة، وقال مالک:تعتکف المرأة فی مسجد الجماعة ولا یعجبہ أن تعتکف فی مسجد بیتہا، وقال الشافعی:”العبد والمرأة والمسافر یعتکفون حیث شاء وا؛ لأنہ لا جمعة علیہم“۔قال أبو بکر: روی عن النبی صلی الله علیہ وسلم أنہ قال :”لا تمنعوا إماء الله مساجد الله ، وبیوتہن خیر لہن“فأخبر أن بیتہا خیر لہا، ولم یفرق بین حالہا فی الاعتکاف وفی الصلاة، ولما جاز للمرأة الاعتکاف باتفاق الفقہاء وجب أن یکون ذلک فی بیتہا لقولہ علیہ السلام :”وبیوتہن خیر لہن“،فلو کانت ممن یباح لہا الاعتکاف فی المسجد لکان اعتکافہا فی المسجد أفضل ولم یکن بیوتہن خیرا لہن؛ لأن الاعتکاف شرطہ الکون فی المساجد لمن یباح لہ الاعتکاف فیہ الخ (أحکام القرآن للجصاص، ۱:۳۰۳،سورة البقرة،رقم الآیة:۱۸۷، ط دار إحیاء التراث العربي بیروت)۔

    ولا تعتکف المرأة إلا في مسجد بیتھا،…… فإذا کرہ لھن الاعتکاف فی المسجد مع أنھن کن یخرجن إلی الجماعة في ذلک الوقت فلأن یمنعن في زماننا أولی، وقد روی الحسن عن أبي حنیفة رحمھما الله تعالی أنھا إذا اعتکفت في مسجد الجماعة جاز ذلک واعتکافھا في مسجد بیتھا أفضل، وھذا ھو الصحیح ؛ لأن مسجد الجماعة یدخلہ کل أحد وھو طول النھا ر لا تقدر أن تکون مستترة ویخاف علیھا الفتنة من الفسقة فالمنع لھذا وھو لیس لمعنی راجع إلی عین الاعتکاف الخ (المبسوط للسرخسي، ۳: ۱۱۹، ط: دار المعرفة بیروت لبنان)۔

    ولا تعتکف المرأة إلا في مسجد بیتھا یعنی: موضع صلاتھا في بیتھا، وقال الشافعي رحمہ اللہ تعالی: لا تعتکف إلا في مسجد حیھا، وعندنا لو اعتکفت فيمسجد حیھا جاز ویکرہ (الفتاوی الخانیة علی ھامش الھندیة، ۱: ۲۲۱، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    فالإفتاء بمنع العجائز فی الکل یخالف الکل ، وما فی الدر المنتقی یوافق ما ھنا حیث قال: وفی الکافي وغیرہ : أما في زماننا فالمفتی بہ منع الکل فی الکل حتی فی الوعظ ونحوہ، (قولہ: لفساد الزمان)ولذا قالت عائشة للنساء حین شکون إلیھا من عمر لنہیہ لھن عن الخروج إلی المساجد لو علم النبي صلی الله علیہ وسلم ما علم عمر ما أذن لکن فی الخروج قھستاني (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار، ۱:۲۴۵،ط:مکتبة الاتحاد دیوبند)۔

    وقولہ: ” ویکرہ فی المسجد “: إلا أنہ جائز بلا خلاف بین أصحابنا، وظاھر ما فی النھایة أنھا کراھة تنزیہ، وینبغي علی قیاس ما مر من أن المختار منعھن من الخروج فی الصلوات کلھا أن لا یتردد فی منعھن من الاعتکاف فی المسجد، أبو السعود (المصدر السابق، کتاب الصوم، باب الاعتکاف،۱: ۴۷۳)، ومثلہ في حاشیتہ علی المراقي(ص: ۶۹۹، ۷۰۰، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔

    وینبغي علی قیاس ما مر من أن المختار منعھن من الخروج فی الصلوات کلھا أن لا یتردد في منعھن فی الاعتکاف فی المسجد الخ (فتح اللہ المعین علی شرح العلامة منلا مسکین، ۱: ۴۵۳)۔

    (وللمرأة الاعتکاف في مسجد بیتھا وھو محل عینتہ) المرأة (للصلاة فیہ)،فإن لم تعین لھا محلاً لا یصح الاعتکاف فیہ، وھي ممنوعة عن حضور المساجد (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی علیہ، ص:۷۰۰)۔

    وھي ممنوعة عن حضور المساجد کما بیناہ (إمداد الفتاح، ص: ۶۷۴، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)۔

    وتخصیص المصنف الرجل بالمسجد والمرأة بالبیت إنما ھو علی المطلوب من المرأة ؛ لأنھا لو اعتکفت فی المسجد صح ولکنہ یکرہ ، صرح بالکراھة فی الفتح (الشرنبلالیة، ۱: ۲۱۲، ط: مکتبة میر محمد،آرام باغ کراتشی)۔

    وینبغي علی قیاس ما مر من أن المختار منعھن من الخروج فی الصلوات کلھا أن لا یتردد في منعھن من الاعتکاف فی المسجد ،ھذا (النھر الفائق، ۲: ۴۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۲، ۳):فقہا نے عورت کے اعتکاف کی صحت بلا کراہت مسجد بیت میں اور بہ کراہت مسجد جماعت میں لکھی ہے اور مدرسة البنات بستی کی خواتین کے لیے مسجد بیت نہیں ہے ، نیز مسجد جماعة بھی نہیں ہے، اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ بستی کی مستورات کا جمع ہوکر کسی مدرسہ بنات میں اعتکاف کرنا صحیح نہ ہوگا اور انھیں سنت کا ثواب بھی نہیں ملے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند