• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 162630

    عنوان: چہرہ كے پردے كی شرعی حیثیت

    سوال: ہمارے یہاں بنگلہ دیش میں ایک مشہور دیوبندی عالم ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ شرعی پردہ کے لیے حجاب نقاب یا برقع کی خاص ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ اگر کوئی عورت "شرافت والا" لباس پہن لے اور اس سے س کی عورت چھپ جاتی ہو تو لباس شرعی پردہ کے لیے کافی ہے ، چاہے یہ لباس ساڑی ہو یا کرتا ۔ میرا سوال یہ ہے کہ (۱) کیا شرعی پردہ کے لیے عام لباس کے سوا الگ برقع حجاب یا نقاب کی ضرورت نہیں؟ (۲) عہد نبوی میں عورتوں کے پردہ کی صورت وشکل کیا تھی؟ (۳) مروجہ پردہ کا ثبوت قرآن اور حدیث میں ہے ؟ (۴) نیز ہا تھ اور منہ کے بارے میں پردہ کا کیا حکم ہے ؟ قرآن و سنت اور صحابہ کے معمول کے روشنی میں جواب دیں،بہت ممنون ہوں گا ۔

    جواب نمبر: 162630

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1335-166T/sd=11/1439

     (۱تا۴)شریعت کا اصل مطلوب ایسا حجاب ہے جس میں عورت کا کوئی حصہ کسی اجنبی مرد کو نظر نہ آئے ، یہ حجاب (پردے ) کا پہلا درجہ ہے ، قرآن کریم میں ہے : یا أیہا النساء لستنَّ کأحد من النساء ان تقیتن، فلاتخضعن بالقول الی قولہ: وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیة الأولیٰ (الاحزاب: ۳۳-۲۳ )

     اس آیت میں پردے سے متعلق ارشاد ِ باری کا حاصل یہ ہے کہ ازواج ِ مطہرات کوخطاب کرکے کہا جارہا ہے کہ تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو یعنی محض کپڑا اوڑھ لپیٹ کر پردہ کرلینے پرکفایت مت کرو؛ بلکہ پردہ اس طرح کرو کہ بدن مع لباس نظر نہ آئے اور قدیم زمانہ ٴجاہلیت کے دستورکے موافق مت پھرو، جس میں بے پردگی رائج تھی گو بلا فحش ہی کیوں نہ ہو۔ (بیان القرآن: ۴۶/۹) اس آیت میں عورتوں کے پردے کی سب سے محتاط صورت ذکر کی گئی ہے ، جس کو علماء ، حجاب بالبیوت سے تعبیر کرتے ہیں اور اس میں خطاب اگر چہ ازواج مطہرات کو ہے ؛ لیکن حکم عام ہے ؛ بلکہ دیگر عورتوں کے لیے آیت میں ذکر شدہ احکام بدرجہٴ اولی ٰلازم ہوں گے ؛ اس لیے کہ ان احکام کی علت فساد کے ذرائع کو بند کرناہے اور ظاہر ہے کہ دوسری عورتیں اس کی زیادہ محتاج ہیں۔

    قَال العلامة الجصاص: فیہ الدلالة علی أن النساء مأمورات بلزوم البیوت منہیات عن الخروج -وہذہ الأمور کلہامما أدّب اللّٰہ بہ نساء النبیﷺ صیانة لہن ونساء الموٴمنین مرادات بہا ۔ (أحکام القرآن للجصاص: ۲۳۰/۵، ط: داراحیاء التراث العربی) وقال العلامة ابن کثیر : ہٰذہ آداب أمراللّٰہ تعالیٰ بہا نساء النبیﷺ ونساء الأمة تبع لہن فی ذٰلک (ابن کثیر: ۴۰۸/۶، ط: دارطیبة للنشر والتوزیع) وفی أحکام القرآن للتھانوی: وہذہ الآیة تدل علی أن کیفیة الحجاب الشرعی ہو التستر بالبیوت والخدور بحیث لا ینکشف للرجال شیء من أبدانہن وزینتہن۔ (۴۰۸/۳ط: ادارة القرآن کراچی)

    البتہ بسا اوقات کسی دینی یا دنیوی ضرورت کی بنا پر عورت کے لیے گھر سے باہر نکلنا ناگزیر ہوتا ہے ، تو ایسے موقع پر فقہائے کرام نے حجاب کا دوسرا درجہ اختیار کرنے کی اجازت دی ہے ، جو یہ ہے کہ عورتیں سر سے پاوں تک برقع یا لمبی چادر سے پورے بدن کو چھپاکر نکلیں، جس سے چہرہ ہتھیلیاں اور بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہو، راستہ دیکھنے کے لیے صرف آنکھ کھولیں یا برقع میں آنکھ کی جگہ جالی لگالیں، حجاب کا یہ دوسرا درجہ ہے ، جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے : یا أیہا النبی قل لأزواجک وبناتک ونساء المسلمین یدنین علیہن من جلا بیبہن ذٰلک أدنی أن یعرفن فلایوٴذین وکان اللّٰہ غفوراً رحیما۔ (الاحزاب: ۵۹) یہ آیت حجاب اور پردے کے تعلق سے اہمیت کی حامل ہے ، اس میں واضح طور پر چہرے کے پردے کا حکم دیاگیا ہے ۔ مفسرین کرام نے اس آیت کے تحت بہت طویل کلام کیا ہے ، جس کاخلاصہ یہ ہے کہ مذکور ہ آیت کے نازل ہونے کے وقت سے لے کر اب تک صحابہ ٴ کرام، جملہ مذاہب کے فقہاء ِ عظام اور مفسرین امت اس آیت کایہ مطلب سمجھتے آئے ہیں کہ گھر سے باہر نکلتے وقت عورت کے لیے غیر محرم کے سامنے اپنے تمام بدن کو چہرہ سمیت چادر وغیرہ کسی کپڑے سے ڈھانپنا ضروری ہے ؛ البتہ ایک یا دوآنکھیں کھلی رکھنے کی اجازت ہے ۔ بنیادی طور پر اس آیت میں دولفظ ہیں ” جلباب“ ”یدنین علیہن“ پہلے جلباب سے متعلق عبارتیں ذکر کی جاتی ہیں۔ قال العلامة الآلوسی: والجلابیب جمع جلباب: وہو علی ماروی عن ابن عباسالذی یسترمن فوق الی أسفل (روح المعانی: ۲۶۴/۱۱، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت) یعنی حضرت عبداللہ بن عباسکے بہ قول ”جلباب“ اس چادر کوکہاجاتاہے جواوپرسے لے کر نیچے تک پورے جسم کو چھپائے ، وقال الامام ابن حزم : والجلباب فی لغة العرب التی خاطبنا بہا رسول اللّٰہﷺ ہوماغطّٰی جمیعَ الجسم لابعضہ۔ (المحلی لابن حزم: ۲۱۷/۳، ط: دارالفکر ، بیروت) یعنی : لغت ِ عرب میں ”جلباب“اس چادرکوکہا جاتاہے جوپورے بدن کو چھپالے نہ کہ وہ چادر جوبعض جسم کو چھپالے : وقال ابن منظور: الجلباب ثوب أوسع من الخمار دون الرداء تغطی بہ المرأة رأسہا وصدرہا(لسان العرب: ۲۷۲/۱، ط: درالصادر ، بیروت) (وکذا فی تاج العروس : ۱۷۵/۲، دارالہدیة ، بیروت) وفی الکشاف : معنی ”یدنین علیہن“ یرخین علیہن یقال: اذا زلّ الثوب عن وجہ المرأة أدلی ثوبک علی وجہک وعندی أن کل ذٰلک بیان لحاصل المعنی والظاہر أن المراد ب”علیہن“ علی جمیع أجسادہن (روح المعانی: ۲۶۴/۱۱، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت) وفی البحر المحیط: ”یدنین علیہن“شامل لجمیع أجسادہن أوعلیہن: علی وجوہہن لأن الذی کان یبدو فی الجاہلیة ہو الوجہ(البحرالمحیط: ۵۰۴/۸، ط: دارالفکر، بیروت) مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آیت مذکورہ میں عورتوں کے لیے چہرہ سمیت مکمل بدن چھپانے کا حکم ہے اورآیت کے نزل ہونے کامقصد بھی یہی ہے ، چناں چہ مفسرین عظام اس کا یہی مطلب سمجھتے ہوئے آئے ہیں: فأخرج ابن جریر وابن أبی حاتم وابن مردویہ عن ابن عباسفی ہذہ الآیة قال: أمر اللّٰہ نساء الموٴمنین اذا خرجن من بیوتہن فی حاجة أن یغطین وجوہہن من فوق روٴوسہن بالجلابیب ویبدین عینًا واحدة۔ وأخرج عبدالرزاق وأبو داوٴد وابن أبی حاتم عن أم سلمةقالت: لمّا نزلت ہٰذہ الآیة : ”یدنین علیہن من جلابیہن“ خرج نساء الأنصار کأن علی روٴوسہن الغربان من السکینة وعلیہن أکسیة سود یلبسونہا۔ (فتح القدیر: ۳۵۲/۴، ط: دارابن کثیر) حضرت عبداللہ بن عباساس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی عورتوں کو یہ حکم فرمایا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو چادروں کے ذریعے اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے ڈھانپ لیں اور صرف ایک آنکھ کھولیں اورحضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی توانصار کی خواتین اپنے گھروں سے اس طرح نکلیں کہ گویاان کے سر اس طرح بے حرکت تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور ان کے اوپر کالا کپڑاتھا، جسکو وہ پہنی ہوئی تھیں۔ وقال الواحدی: قال المفسرون: یغطین وجوہہن وروٴسہن الاعینًا واحدةً(فتح القدیر: /۴ ۳۴۹، دارابن کثیر) وعن محمدبن سیرین قال سألتُ عبیدة السلمانی عن ہٰذہ الآیة: یدنین علیہن من جلابیبہن ، فرفع ملحفةً کانت علیہ وغطی رأسہ کلّہ حتی بلغ الحاجبین وغطی وجہہ وأخرج عینہ الیُسریٰ من شق وجہہ الأیسر وقال قتادة: تلوی الجلباب فوق الجبین وتشدہ ثم تعطفہ علی الأنف وان ظہرت عیناہا لکن تستر الصدرومعظم الوجہ(روح المعانی: ۲۶۴/۱۱، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت) محمد بن سیرین نے حضرت عبیدہ بن سفیان سلمانیسے چادر کے اوڑھنے کا طریقہ معلوم کیا تو انھوں نے اپنی شال اٹھائی اورپہلے انھوں نے اپنے سر اورپیشانی کو اس طرح ڈھانکا کہ بھنویں تک چھپ گئیں، پھر اسی چادر سے اپنے چہرے کے بقیہ حصے کو اس طرح چھپایا کہ صرف داہنی آنکھ کھلی رہ گئی، اورحضرت قتادہاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عورت اپنے جلباب کو اپنی پیشانی سے موڑ کر باندھ لے اور پھر اپنی ناک پرموڑلے ، اگرچہ دونوں آنکھیں ظاہر ہوجائیں؛ لیکن اپنے سینے کو اورچہرے کے اکثر حصے کو چھپالے (ہکذا قال العلامة القرطبی فی تفسیرہ: ۴۸۱/۱۴، ط: دارطیبة للنشر والتوزیع، وأبوالسعود: : ۱۱۵/۷، ط: داراحیاء التراث العربی، والقاضی ثناء اللّٰہ فی التفسیرالمظہری : ۳۸۴/۷، ط: مکتبة الرشیدیة، باکستان)، بہر حال یہ آیت اس بارے میں صریح ہے کہ عورتوں کو گھروں سے نکلتے وقت اپنے بدن کے پردے کے ساتھ ساتھ چہرہ کابھی پردہ ضروری ہے اور ہاتھ کا ہردہ نہیں ہے ، اسی طرح ٹخنوں تک دونوں پیروں کو چھپانا بھی ضروری نہیں ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند