معاشرت >> عورتوں کے مسائل
سوال نمبر: 162018
جواب نمبر: 162018
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1022-165T/N=1/1440
(۱): جس وقت قبرستان میں مرد لوگ ہوں اور وہاں سے گیلری میں بے پردگی کا اندیشہ ہو ، اس وقت عورتیں گیلری میں کپڑے سکھانے وغیرہ کسی بھی کام سے نہ جائیں؛ تاکہ بے پردگی نہ ہو۔ اور جب قبرستان میں کوئی مرد نہ ہو یابے پردگی کا اندیشہ نہ ہو تو گھر کی عورتیں کپڑے سکھانے وغیرہ کے لیے گیلری میں جاسکتی ہیں، اور اس میں قبرستان کی کوئی بے حرمتی نہیں ہے۔
(۲): عورتوں کا فٹنیس سینٹر جانا فتنہ سے خالی نہیں؛ اس لیے اس کی اجازت نہیں ہوسکتی ۔ اور وزن کم کرنے کے لیے عورتیں اپنے گھرو ں میں ہی وزن کم کرنے کی تدبیریں اختیار کریں۔
(۳):عورت کا اپنے شوہر کو اس کا نام لے کر پکارنا مکروہ وبے ادبی ہے؛ بلکہ عورت جب بھی شوہر کو پکارے تو ادب وتعظیم کے الفاظ سے پکارے؛ البتہ ضرورت پر نام لے سکتی ہے، مثلاً کسی نے پوچھا کہ آپ کے شوہر کا نام کیا ہے؟ تو وہ اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے۔
ویکرہ أن یدعو الرجل أباہ وأن تدعو المرأة زوجھا باسمہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع وغیرہ، ۹:۵۹۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”ویکرہ أن یدعو الخ“: بل لا بد من لفظ یفید التعظیم کیا سیدي ونحوہ لمزید حقھما علی الولد والزوجة (رد المحتار)۔
(۴): جس کمرہ میں ٹیلی ویزن ہو، اس میں قرآن کریم رکھنا بے ادبی ہے؛ بلکہ ٹیلی ویزن گھر میں رکھنا ہی جائز نہیں؛ کیوں کہ بے شمار فواحش ومنکرات کا پٹارہ ہے۔
(۵): شوہر کو اللہ تعالی نے عورت پر حاکم کا مقام عطا فرمایا ہے؛ اس لیے شوہر کا بیوی کے پیر دابنا شوہر کی شان کے خلاف ہے۔ اور اگر عورت کے پیروں میں مستقل درد رہتا ہے تو وہ اس کا علاج کرائے یا کسی بیٹی سے پیر دبوالیا کرے یا گھر میں کام کاج کے لیے جو خادمہ ہو، اسے مزید کچھ معاوضہ دے کر اس سے پیر دبوالیا کرے، خلاصہ یہ کہ عورت اپنے شوہر سے پیر نہ دبوائے۔
(۶):جی نہیں! بچوں کو کھلونے کے طور پر گڑیاں خریدکر نہیں دے سکتے اور نہ ہی گھر میں ان کا رکھنا درست ہے۔
(۷):شطرنج اور کیرم بورڈ شریعت میں ناجائز کھیل ہیں، ان میں کوئی جسمانی ورزش نہیں ہوتی، صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ اور بیڈ منٹن اور کرکٹ یہ وہ کھیل ہیں جو انسان کو ضروری چیزوں سے غافل کردیتے ہیں؛ اس لیے علمی وعملی کمالات سے مستقبل بنایا جائے نہ کہ کھیل کود کی چیزوں سے ۔
(۸): آج کل شوقیہ کتا پالنے کا عام رواج ہورہا ہے اور لوگ کتوں پر ماہانہ بڑی موٹی رقم خرچ کرتے ہیں؛ البتہ شریعت نے واقعی ضرورت پر حفاظت کی غرض سے کتا پالنے کی اجازت دی ہے، پس اگر چوکیدار رکھ کر حفاظت کی ضرورت پوری نہ ہوسکے تو حفاظتی کتا رکھنے کی اجازت ہوگی۔ اور اگر حفاظت کی ضرورت چوکیدار کے ذریعہ پوری ہوسکے تو کتا پالنے سے گریز کیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند