معاشرت >> عورتوں کے مسائل
سوال نمبر: 159308
جواب نمبر: 159308
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:673-112T/N=8/1439
(۱): یہ ہر بیماری سے شفا یابی کا ایک علاج ہے جو شریعت میں صرف جائز ومباح کی حیثیت رکھتا ہے، سنت، واجب یا فرض نہیں ہے، اس کے جواز کے لیے اس میں کسی خلاف شرع امر کا نہ ہونا ہی کافی ہے ، اس کے لیے کسی خاص حدیث کا ہونا ضروری نہیں اور عام نصوص شرع سے بہرحال اس کا جواز ثابت ہے۔
(۲):عورت مرد کی امامت نہیں کرسکتی، مرد کی نماز بالکل نہیں ہوگی۔
وفسد اقتداء رجل بامرأة أو صبي أما الأول فلما قدمناہ من الحدیث، ونقل فی المجتبی الإجماع علیہ (البحر الرائق، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۱: ۶۲۸، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، ولا یجوز اقتداء رجل بامرأة ھکذا فی الھدایة (الفتاوی الھندیة، ۱: ۸۵، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، ومثلہ في الدر المختار ورد المحتار (۲: ۲۸۴، ۳۲۱، ط: مکتبة زکریادیوبند) وغیرھما من کتب الفقہ والفتاوی الأخری۔
(۳): حیض کا خون عام طور پر سرخ ہوتا ہے اور بعض عورتوں کو حیض سے کچھ پہلے اس کے آنے کا احساس بھی ہوجاتا ہے، سب کو نہیں۔ اور عورت کو مہینہ کی جس تاریخ میں خون آیا ہو، ضروری نہیں کہ آئندہ ماہ اسی تاریخ میں آئے، کچھ آگے پیچھے بھی ہوسکتاہے اور سب عورتوں کی عادت اس میں یکساں نہیں ہوتی۔
(۴): اگر حیض کا خون پینٹی یا پیڈ وغیرہ میں لگا ہو تو شوہر کا اسے دیکھنا یا چھونا نفاست کے خلاف ہے۔ اور اگر وہ عورت کی شرمگاہ پر نظر ڈال کر خون دیکھے اور شرمگاہ وغیرہ دیکھنے میں لذت حاصل ہو تویہ ناجائز ہے۔
ویمنع -أي: الحیض -حل قربان ما تحت إزاریعنی:ما بین سرة ورکبة ولو بلا شھوة (الدر المختار، مع رد المحتار،۱:۴۸۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ولا یخفی أن الأول صریح في عدم حل النظر إلی ما تحت الإزار، والثاني قریب منہ، ولیس بعد النقل إلا الرجوع إلیہ (رد المحتار)۔
(۵): بیوی کا شوہر کا عضو تناسل ہاتھ میں لے کر اسے انزال کرانا درست نہیں، نیز یہ طبی اعتبار سے بھی مرد کے لیے نقصان دہ ہے؛ البتہ شوہر جماع سے پہلے بیوی کی شہوت بھڑکانے اور اسے لذت دینے کے لیے اس کی شرمگاہ میں اس حد تک انگلی ڈال سکتا ہے کہ عورت کو تکلیف نہ ہو اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
والاستمناء حرام وفیہ التعزیر،ولو مکن امرأتہ أو أمتہ من العبث بذکرہ فأنزل فإنہ مکروہ ولا شییٴ علیہ (الجوھرة النیرة، کتاب الحدود، قبیل باب حد الشرب، في شرح قول القدوري: ومن أتی امرأة فی الموضع المکروہ الخ ۲: ۲۴۵، ط:دار الکتاب دیوبند)، قولہ: ” ولا شییٴ علیہ“:من حد أو تعزیر(حاشیة الطحطاوي علی الدرالمختار ،۲: ۳۹۷، ط:مکتبة الاتحاد دیوبند)۔
(۶):حیض کے ایام میں بیوی کی ناف سے گھٹنوں تک کا حصہ براہ راست کسی کپڑے کے بغیر چھونا جائز نہیں؛ بلکہ شہوت کے ساتھ اسے دیکھنا بھی جائز نہیں ہے، پس شرمگاہ میں انگلی ڈال کر عورت کو لذت دینا بہ درجہ اولی ناجائز ہوگا۔
ویمنع -أي: الحیض -حل قربان ما تحت إزاریعنی:ما بین سرة ورکبة ولو بلا شھوة (الدر المختار، مع رد المحتار،۱:۴۸۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ولا یخفی أن الأول صریح في عدم حل النظر إلی ما تحت الإزار، والثاني قریب منہ، ولیس بعد النقل إلا الرجوع إلیہ (رد المحتار)۔
(۷): قضائے شہوت کے لیے سیکسی کھلونوں کا استعمال جائز نہیں، یہ غلط راستوں سے شہوت رانی کرنا ہے؛ البتہ اگر وائبریٹر بیوی کی شرمگاہ کے اندر نہیں جاتا، وہ صرف اوپر سے وائبریٹ کرتا ہے تو شوہر کے ساتھ اس کے استعمال کی گنجائش ہوگی۔
(۸): عورتوں کو قبرستان نہیں جانا چاہیے، احوط یہی ہے، وہ گھر ہی پر رہ کر مرحومین کے لیے ایصال ثواب کردیا کریں۔
(۹): اسلام سے پہلے آدمی مکلف نہیں ہوتا؛ اس لیے اسلام کے بعد کفر کے زمانے کی نمازیں اور روزوں کی قضا نہیں ہے؛ جب کہ حج سے پہلے مسلمان مکلف ہوتا ہے اور حج سے صرف گناہ معاف ہوتے ہیں، چھوٹی ہوئی نمازیں اور روزے معاف نہیں ہوتے؛ اس لیے حج کے بعد بھی چھوٹی ہوئی نمازوں اور روزوں کی قضا واجب ہوتی ہے۔
(۱۰): حج سے گذشتہ گناہ معاف ہوتے ہیں اور آئندہ کے گناہ معاف نہیں ہوتے؛ اس لیے حج کے بعد بھی جو شخص گناہوں کی زندگی گذارے گا، وہ آخرت میں سزا یاب ہوسکتا ہے۔
(۱۱): حج پر انسان توبہ کرتا ہے، اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا، ویسے اگر تمام فرائض وواجبات اور سنن وآداب کی رعایت کے ساتھ حج کیا جائے تو وہ انسان کے تمام گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہوتا ہے؛ چناں چہ صحیحین میں حضرت ابو ہریرہسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے حج کیا اور اس نے حج میں کوئی فحش بات نہیں کہی اور نہ کی اور اس نے کوئی گناہ کا کام بھی نہیں کیا تو وہ اس دن کی طرح ہوکر واپس ہوتا ہے، جس دن اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔
عن أبي ھریرةقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”من حج فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ“ متفق علیہ (مشکاة المصابیح، کتاب المناسک، الفصل الأول، ص: ۲۲۱، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند