معاشرت >> عورتوں کے مسائل
سوال نمبر: 157131
جواب نمبر: 157131
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:323-42T/D=4/1439
(۱) جی ہاں پلا سکتی ہے، اور اگر بھوک کی وجہ سے بچی کی ہلاکت کا اندیشہ ہو اور کوئی دوسرا پلانے والا نہ ہو تو پلانا واجب ہے، البتہ ان دونوں بہنوں کے درمیان رضاعی ماں، بیٹی کا رشتہ بھی قائم ہوجائے گا؛ لیکن ان کے اصلی حقیقی ماں باپ ماں باپ ہی رہیں گے۔
(۲) عورت کا ہاتھ دکھاکر اس طرح غیب کی بات معلوم کرنا، ناجائز ہے ، حدیث شریف میں آیا ہے من أتی عرّافا أو کاہنا وسألہ فصدقہ مما یقول فقد کفر بما أنزل علی محمد صلی اللہ علیہ وسلم (مسند احمد) ترجمہ شخص کسی عراف یا کاہن کے پاس آکر غیب کی بات معلوم کرے، پھر اس کو سچ بھی سمجھے، اس نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا انکار کیا، یعنی اس نے کفر کیا۔
(۲) منکوحہ عورت کو اگر خلوت سے پہلے طلاق دے دی جائے تو اس پر عدت واجب نہیں ہوتی ہے، أربع من النساء لا عدة علیہن: المطلّقة قبل الدخول․․․ الخ (الہندیة: ۱/ ۵۸۰)
(۴) چوں کہ ایرہوسٹس کے لیے مسافرین کی خدمت کے ساتھ بے پردگی اور آرائش وزیبائش ملازمت کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے جب کہ پردے کے احکام اسلام میں لازمی اور ضروری ہیں، اس لیے ایسی ملازمت جائز نہیں ہے۔
(۵) انسان کو جو بھی اچھی بری حالت پیش آتی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ (سورہٴ نساء: ۷۹) ترجمہ: اچھی اور بری حالت اللہ کی طرف سے ہے۔ البتہ مفسرین فرماتے ہیں کہ اچھی حالت براہ راست اللہ کے فضل سے ہے، یعنی انسانوں کے اعمال اس لائق نہیں ہوتے کہ اس پر انعام واحسان کیا جائے، اور اگر کچھ اعمال اس لائق ہو بھی جائیں تو وہ اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں؛ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انعام واحسان کرتا رہتا ہے۔ جو بری حالت پیش آتی ہے وہ بھی اللہ کی طرف سے ہی ہے اور یہ متقضائے عدل انسانوں کے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتی ہے، جو آیت آپ نے پیش کی ہے اس میں اسی معنی کے اعتبار سے بری حالت کو بندے کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔آپ نے جس آیت کا ترجمہ لکھا ہے، اس سے پہلی والی آیت اور اس کا ترجمہ وتفسیر پڑھ لیجئے تو کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا، بیان القرآن ج:۱ص:۳۷۵، میں تفصیل سے لکھا ہے۔
(۶) شادی میں صرف ایسی ڈفلی جس میں ایک جانب چمڑا چڑھا ہوا ہو، اور اس میں گھنگرو وغیرہ بھی نہ ہوں اس کو شادی کے موقع سے اعلان کے طور پر بجانے کی گنجائش ہے۔ اس کے علاوہ جس میں گھنگرو ہوں یا چھن چھن کی آواز آتی ہو اس کا بجانا جائز نہیں ہے۔ اور عورتوں کے تالی بجانے کا ذکر جو حدیث شریف میں آیا ہے، وہ اس وقت کے لیے ہے جب کہ عورت نماز میں ہو اورکوئی اس کے سامنے سے گزرے، تو وہ عورت اس کو روکنے کے لیے یا عورت کو جماعت کی نماز میں لقمہ دینے کی ضرورت پیش آئے، اس وقت اپنے بائیں ہاتھ پر دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت کو مارے۔ اس کے علاوہ مروج تالی عورتوں کے لیے کسی موقع سے بھی جائز نہیں ہے۔ اور گانے کی بات جو حدیث شریف میں آئی ہے، اس کے لیے شرط یہ ہے کہ گانے کے اندر گائے جانے والے اشعار عشقیہ اور فسقیہ نہ ہوں، نیز اگر عورتیں گائیں تو یہ بھی شرط ہے کہ ان کی آواز کسی غیر محرم مرد تک نہ پہنچے ان دونوں شرطوں کے ساتھ اجازت ہوگی، اس کے بغیر کسی بھی حال میں گانا گانا جائز نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند