• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 153643

    عنوان: کیا عورت سر کے بال باندھ کر جنابت والا غسل کر سکتی ہے

    سوال: (۱) کیا عورت سر کے بال باندھ کر جنابت والا غسل کر سکتی ہے جبکہ غسل واجب بھی اسی حالت میں ہوا ہو؟ (۲) کیا گمشدہ مال استعمال کرسکتے ہیں؟ یعنی بکر نے اپنا مال کھودیا اور وہ مال زید کو مل گیا تو کیا زید وہ مال استعمال کر سکتا ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں کرسکتا تو وہ اس مال کا کیا کرے ؟ ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد بکر اپنا مال تلاش کرتے کرتے زید تک پہنچ جائے تو زید کیا کرے جبکہ زید وہ مال استعمال کرچکا ہو یا صدقہ کر چکا ہو ؟ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں

    جواب نمبر: 153643

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1274-1217/12/1428

     اگر کسی عورت کی چوٹی پہلے سے بندھی ہوئی تھی اور اسے غسل جنابت کی ضرورت پیش آجائے ، تو اُس پر چوٹی کھولنا ضروری نہیں ہے ؛ بلکہ بالوں کی جڑ تک پانی پہنچانا کافی ہے ؛ لیکن اگر بال پہلے سے کھلے ہوئے ہوں، تو تمام بالوں کو دھونا ضروری ہوگا۔

    قال الحصکفی (وَکَفَی، بَلْ أَصْلُ ضَفِیرَتِہَا) أَیْ شَعْرُ الْمَرْأَةِ الْمَضْفُورِ لِلْحَرَجِ، أَمَّا الْمَنْقُوضُ فَیُفْرَضُ غَسْلُ کُلِّہِ اتِّفَاقًا۔قال ابن عابدین : ((قَوْلُہُ: لِلْحَرَجِ) وَالْأَصْلُ فِیہِ مَا رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَغَیْرُہُ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ. قُلْت: یَا رَسُولَ اللَّہِ إنِّی امْرَأَةٌ أَشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِی أَفَأَنْقُضُہُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ؟ فَقَالَ: لَا، إنَّمَا یَکْفِیک أَنْ تَحْثِیَ عَلَی رَأْسِک ثَلَاثَ حَثَیَاتٍ ثُمَّ تُفِیضِینَ عَلَیْک الْمَاءَ فَتَطْہُرِینَ وَمُقْتَضَی ہَذَا الْحَدِیثِ عَدَمُ وُجُوبِ الْإِیصَالِ إلَی الْأُصُولِ فَتْحٌ، لَکِنْ فِی الْمَبْسُوطِ: وَإِنَّمَا شُرِطَ تَبْلِیغُ الْمَاءِ أُصُولَ الشَّعْرِ لِحَدِیثِ حُذَیْفَةَ فَإِنَّہُ کَانَ یَجْلِسُ إلَی جَنْبِ امْرَأَتِہِ إذَا اغْتَسَلَتْ فَیَقُولُ یَا ہَذِہِ أَبْلَغِی الْمَاءَ أُصُولَ شَعْرِک وَشُوٴُونَ رَأْسِک، وَہِیَ مَجْمَعُ عِظَامِ الرَّأْسِ ذَکَرَہُ الْقَاضِی عِیَاضٌ بَحْرٌ. وَاسْتُفِیدَ مِنْ الْإِطْلَاقِ أَنَّہُ لَا یَجِبُ غَسْلُ ظَاہِرِ الْمُسْتَرْسِلِ إذَا بَلَغَ الْمَاءُ أُصُولَ الشَّعْرِ، وَبِہِ صَرَّحَ فِی الْمُنْیَةِ، وَعَزَاہُ فِی الْحِلْیَةِ إلَی الْجَامِعِ الْحُسَامِیِّ وَالْخُلَاصَةِ، ثُمَّ قَالَ: وَمِمَّنْ نَصَّ أَیْضًا عَلَی أَنَّ غُسْلَ ظَاہِرِ الْمُسْتَرْسِلِ مِنْ ذَوَائِبِہَا مَوْضُوعٌ عَنْہَا الْبَزْدَوِیُّ وَالصَّدْرُ الشَّہِیدُ، وَعَبَّرَ عَنْہُ بِالصَّحِیحِ فِی الْمُحِیطِ الْبُرْہَانِیِّ وَمَشَی عَلَیْہِ فِی الْکَافِی وَالذَّخِیرَةِ. اہ.(قَوْلُہُ: اتِّفَاقًا) کَذَا فِی شَرْحِ الْمُنْیَةِ، وَفِیہِ نَظَرٌ لِأَنَّ فِی الْمَسْأَلَةِ ثَلَاثَةَ أَقْوَالٍ کَمَا فِی الْبَحْرِ وَالْحِلْیَةِ.الْأَوَّلُ الِاکْتِفَاءُ بِالْوُصُولِ إلَی الْأُصُولِ وَلَوْ مَنْقُوضًا، وَظَاہِرُ الذَّخِیرَةِ أَنَّہُ ظَاہِرُ الْمَذْہَبِ، وَیَدُلُّ عَلَیْہِ ظَاہِرُ الْأَحَادِیثِ الْوَارِدَةِ فِی ہَذَا الْبَابِ.الثَّانِی التَّفْصِیلُ الْمَذْکُورُ وَمَشَی عَلَیْہِ جَمَاعَةٌ مِنْہُمْ صَاحِبُ الْمُحِیطِ وَالْبَدَائِعِ وَالْکَافِی.الثَّالِثُ وُجُوبُ بَلِّ الذَّوَائِبِ مَعَ الْعَصْرِ وَصُحِّحَ، وَتَمَامُ تَحْقِیقِ ہَذِہِ الْأَقْوَالِ فِی الْحِلْیَةِ وَحَالَ فِیہَا آخَرُ إلَی تَرْجِیحِ الْقَوْلِ الثَّانِی، وَہُوَ ظَاہِرُ الْمُتُونِ.( الدر المختار مع رد المحتار : ۱۵۳/۱، ط: دار الفکر، بیروت )

    (۲) صورت مسئولہ میں پہلے زید پر لازم تھا کہ وہ بکر کا مال اُس تک پہنچانے کی حتی الامکان کوشش کرتا؛ لیکن اگر اتنی مدت گذر گئی کہ اصل مالک کے آنے کی امید نہ رہی ہو، تو زید کو اختیار ہے یا تو وہ بکر کا سامان اپنے پاس محفوظ رکھے یا بکر کی طرف سے غریب مسکین کو صدقہ کر دے اور اگر زید خود مسکین ہے ، تو وہ بکر کا سامان خود بھی استعمال کر سکتا ہے ؛ لیکن اگر مالک (بکر) آجائے اور وہ اپنے سامان کا مطالبہ کرے ، تو زید کے لیے بکر کا سامان یا اُس کا بدل واپس کرنا ضروری ہوگا خواہ اُس نے خود استعمال کیا ہو یا صدقہ کیا ہو؛ البتہ اگر بکر اپنی طرف سے صدقہ کی اجازت دیدے گااور زید کو ضامن قرار نہیں دے گا، تو اُس کو ثواب ملے گا۔

    نُدِبَ رفعہا لصاحبہا ووجب عند خوف ضیاعہا؛ فإن أشہَدَ علیہ وعرّف إلی أن علم صاحبہا لا یطلبہا أو أنہا تفسد۔۔۔ فینتفع الرافع بہا لو فقیرا وإلا تصدّق بہا علی فقیر ولو علی أصلہ وفرعہ۔۔۔ فإن جاء مالکہا خیر بین إجازة فعلہ۔۔۔ وتضمینہ (تنویر الأبصار (رد المحتار: ۶/ ۴۳۸، ط: زکریا)قال الزیلعی :قَالَ رحمہ اللہ ( فَإِنْ جَاءَ رَبُّہَا نَفَّذَہُ أَوْ ضَمَّنَ الْمُلْتَقِطَ ) یَعْنِی إذَا جَاءَ صَاحِبُ اللُّقَطَةِ بَعْدَ مَا تَصَدَّقَ بِہَا الْمُلْتَقِطُ فَہُوَ بِالْخِیَارِ إنْ شَاءَ أَمْضَی الصَّدَقَةَ وَلَہُ ثَوَابُہَا لأَنَّ التَّصَدُّقَ لَمْ یَحْصُلْ بِإِذْنِہِ فَیَتَوَقَّفُ عَلَی إجَازَتِہِ وَالْمِلْکُ یَثْبُتُ لِلْفَقِیرِ فَلا یَتَوَقَّفُ عَلَی قِیَامِ الْمَحَلِّ ۔۔۔۔۔وَإِنْ شَاءَ ضَمِنَ الْمُلْتَقِطُ لأَنَّہُ تَصَرَّفَ فِی مَالِہِ بِغَیْرِ إذْنِہِ وَہُوَ مُوجِبٌ لِلضَّمَانِ وَإِذْنُ الشَّرْعِ لا یُنَافِیہِ حَیْثُ لَمْ یَلْزَمْہُ التَّصَدُّقُ بِہَا وَإِنَّمَا أَبَاحَ لَہُ ذَلِکَ فَصَارَ کَتَنَاوُلِ مَالِ الْغَیْرِ حَالَ الْمَخْمَصَةِ ۔۔۔( تبیین الحقائق : ۳۰۴/۳، ط: دار الکتاب الاسلامی ) قال المرغینانی : ( فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُہَا وَإِلا تَصَدَّقَ بِہَا ) إیصَالا لِلْحَقِّ إلَی الْمُسْتَحِقِّ وَہُوَ وَاجِبٌ بِقَدْرِ الإِمْکَانِ , وَذَلِکَ بِإِیصَالِ عَیْنِہَا عِنْدَ الظَّفَرِ بِصَاحِبِہَا وَإِیصَالِ الْعِوَضِ وَہُوَ الثَّوَابُ عَلَی اعْتِبَارِ إجَازَةِ التَّصَدُّقِ بِہَا , وَإِنْ شَاءَ أَمْسَکَہَا رَجَاءَ الظُّفْرِ بِصَاحِبِہَا قَالَ ( فَإِنْ ) ( جَاءَ صَاحِبُہَا ) یَعْنِی بَعْدَمَا تَصَدَّقَ بِہَا ( فَہُوَ بِالْخِیَارِ إنْ شَاءَ أَمْضَی الصَّدَقَةَ ) وَلَہُ ثَوَابُہَا لأَنَّ التَّصَدُّقَ وَإِنْ حَصَلَ بِإِذْنِ الشَّرْعِ لَمْ یَحْصُلْ بِإِذْنِہِ فَیَتَوَقَّفُ عَلَی إجَازَتِہِ , وَالْمِلْکُ یَثْبُتُ لِلْفَقِیرِ قَبْلَ الإِجَازَةِ فَلا یَتَوَقَّفُ عَلَی قِیَامِ الْمَحِلِّ , بِخِلافِ بَیْعِ الْفُضُولِیِّ لِثُبُوتِہِ بَعْدَ الإِجَازَةِ فِیہِ ( وَإِنْ شَاءَ ضَمِنَ الْمُلْتَقِطُ لأَنَّہُ سَلَّمَ مَالَہُ إلَی غَیْرِہِ بِغَیْرِ إذْنِہِ ) إلا أَنَّہُ بِإِبَاحَةٍ مِنْ جِہَةِ الشَّرْعِ , وَہَذَا لا یُنَافِی الضَّمَانَ حَقًّا لِلْعَبْدِ کَمَا فِی تَنَاوُلِ مَالِ الْغَیْرِ حَالَةَ الْمَخْمَصَةِ , وَإِنْ شَاءَ ضَمِنَ الْمِسْکِینُ إذَا ہَلَکَ فِی یَدِہِ لأَنَّہُ قَبَضَ مَالَہُ بِغَیْرِ إذْنِہِ , وَإِنْ کَانَ قَائِمًا أَخَذَہُ لأَنَّہُ وَجَدَ عَیْنَ مَالِہِ . ف( الہدایة مع فتح القدیر : ۱۲۴/۶، ط: دار الفکر، بیروت )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند