• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 153393

    عنوان: پیدائش کے وقت اگر مرد ڈاکٹر ہوں تو کیا حکم ہے ؟

    سوال: امید ہے کہ آپ خیریت اورعافیت سے ہوں گے ، أمّا بعد، بچے کی پیدائش کے بارے میں سوال ہے ۔ ہم یورپ میں رہتے ہیں اور یہاں سرکاری ہسپتال ہیں۔ اگر عورت حاملہ ہوتی ہے تو اسے کئی ٹیسٹ کرتے ہیں، تاکہ بچے اور عورت کی صحت معلوم ہو کہ تھیک ہیں۔ جو ڈاکٹر ہیں وہ عورتیں بھی ہیں اور مرد بھی اور سب غیر مسلم ہیں۔ کچھ ٹیسٹ میں مرد ڈاکٹرعورت کی شرمگاہ کو دیکھتا اور ہاتھ بھی لگاتا ہے ، تو اس صورت میں: ۔ کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے ؟ ۔ پیدائش کے وقت اگر مرد ڈاکٹر ہوں تو کیا حکم ہے ؟ اگر یہ اختیار کیا جائے تو ایسا کرنا کیسا ہے ؟ تقویٰ کے خلاف ہے ؟ اور اگر ضمیر یا غیرت اطمینان نہیں لینے دیتے تو پھر کیا کریں؟ ایک دین دار شخص کیسے یہ برداشت کر سکتا ہے ، جبکہ باقی سب امور میں شریعت کی پابندی کی کوشش ہوتی ہے اور بیوی کے پردے کا خاص لحاظ رکھتا ہے ۔ اللہ تعالی ٰ آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے اور دنیا اور آخرت میں آپ کو اپنے سائے میں رکھے ۔ جزاک اللہ خیراً۔

    جواب نمبر: 153393

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1220-1363/N=1/1439

    (۱): جس ٹیسٹ میں حاملہ عورت کی شرمگاہ دیکھی جاتی ہے اور اس میں ہاتھ لگایا جاتا ہے، وہ صرف کسی لیڈی ڈاکٹر سے کرایا جائے، مرد ڈاکٹر سے ہرگز نہ کرایا جائے۔اور اگر کوئی لیڈی ڈاکٹر دستیاب نہ ہواور وہ ٹیسٹ ضروری ہو، محض احتیاطی نہ ہو ، یعنی: وہ ٹیسٹ نہ کرانے کی صورت میں زچہ یا بچہ کی جان کو خطرہ ہو تو بہ وقت مجبوری مرد ڈاکٹر سے وہ ٹیسٹ کرانے میں انشاء اللہ گناہ نہ ہوگا۔

    ینظر الطبیب إلی موضع مرضھا بقدر الضرورة؛ إذ الضرورات تتقدر بقدرھا، وکذا نظر قابلة وختان، وینبغي أن یعلم امرأة تداویھا؛ لأن نظر الجنس إلی الجنس أخف (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس،۹: ۵۳۲، ۵۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”وینبغي الخ“:کذا أطلقہ فی الھدایة والخانیة۔ وقال فی الجوھرة: إذا کان المرض في سائر بدنھا غیر الفرج یجوز النظر إلیہ عند الدواء؛ لأنہ موضع ضرورة، وإن کان في موضع الفرج فینبغي أن یعلم امرأة تداویھا، فإن لم توجد وخافوا علیھا أن تھلک أو یصیبھا وجع لا تحتملہ یستتروا منھا کل شییٴ إلا موضع العلة ثم یداویھا الرجل ویغض بصرہ ما استطاع إلا عن موضع الجرح اھ فتأمل، والظاھر أن ینبغي ھنا للوجوب (رد المحتار)، والطبیب إنما یجوز لہ ذلک إذا لم یوجد امرأة طبیبة فلو وجدت فلا یجوز لہ أٴن ینظر؛ لأن نظر الجنس إلی الجنس أخف، وینبغي للطبیب أن یعلم أمرأة إن أمکن وإن لم یکن ستر کل عضو منھا سوی موضع الوجع ثم ینظر ویغض ببصرہ عن غیر ذلک الموضع إن استطاع ؛لأن ما ثبت للضرورة یتقدر بقدرھا (تکملة البحر الرائق، کتاب الحظر والإباحة،، فصل فی النظر والمس، ۸:۳۵۲، ۳۵۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (۲): ڈیلیوری کے لیے کسی ایسے ہسپتال کا انتخاب کیا جائے جہاں صرف خواتین ڈیلیوری کراتی ہوں۔ اور اگر کوئی ایسا ہسپتال نہ ہو تو مجبوری ہے۔

    (۳): مسلمانوں کو چاہیے کہ ڈیلیوری کے لیے ایسے ہستال قائم کریں جہاں مکمل پردہ کے ساتھ لیڈی ڈاکٹرس کے ذریعے ڈیلیوری اور اس سے متعلق تمام کاروائی انجام دی جائے، اس پریشانی کا حل یہی ہے ورنہ غیر لوگ عام طور پر بے حیائی والا نظام ہی پسند کرتے ہیں، اللہ تعالی حفاظت فرمائیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند