معاشرت >> عورتوں کے مسائل
سوال نمبر: 148930
جواب نمبر: 148930
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 492-494/B=6/1438
(۱) شریعت اسلامی میں عورتوں کے مردوں کے ساتھ اختلاط اور ان کے سامنے بے محابا آنے جانے کو ناجائز قرار دیا گیا ہے، اسی لیے اجنبی مردوں سے عورتوں کو مکمل پردہ کرنے کا حکم دیا گیاہے، اور وہ پورے بدن کا پردہ ہے اس میں کسی بھی عضو کا استثناء نہیں، ہاتھ، پاوٴں چہرہ سب کا حجاب ہے بلکہ آواز کا بھی حجاب ہے اس لیے ہر عورت پر ضروری ہے کہ وہ اپنے جسم کا کوئی بھی حصہ کسی بھی اجنبی مرد کے سامنے کھلا نہ رکھے اور نہ اپنی آواز سنائے، (فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِی فِی قَلْبِہِ مَرَضٌ۔ القرآن پ: ۲۲)
(۲) ہاں البتہ اپنے محارم (جن سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے) کے سامنے چہرہ دونوں ہاتھ اور پنڈلیاں چھپانا ضروری نہیں، اسی طرح سینہ اور اس کے مقابل پیٹھ کا حصہ بوقت ضرورت کھل جائے تو کچھ حرج نہیں لیکن سینہ و پیٹھ چھپائے رکھنا ہی بہتر ہے، ان کے علاوہ بقیہ اعضاء کا محارم سے بھی چھپانا ضروری ہے۔
(۳) اور نماز کے اندر عورت جب نماز کے لیے کھڑی ہو تو چہر ہ جتنا وضوء میں دھونا فرض ہے اور دونوں ہاتھ پہونچوں تک اور دونوں پیر ٹخنوں سے نیچے تک (یعنی قدمین) کھلا رکھ سکتی ہے، یہ تین اعضاء نماز کے حجاب میں داخل نہیں ہیں: وبدن الحرة عورة إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا۔ (البحر الرائق: ۴۶۸/۱زکریا دیوبند) ینظر الرجل من محرمہ (ہی من لایحل لہ نکاحہا ابداً بنسب أو سبب) إلی الرأس والوجہ والصدر والساق والعضد إن امن شہوتہ وشہوتہا أیضاً وإلا لا، لاإلی الظہر والبطن والفخذ (الدر مع الرد: ۹/ ۵۲۶تا ۵۲۸، زکریا دیوبند) وأما في زماننا فمنع من الشابة قہستاني وغیرہ (۵۳۲، الدر مع الرد، زکریا) قال مشائخنا: تمنع المرأة الشابة من کشف وجہہا بین الرجال في زماننا للفتنة (بحر ۴۷۰/۱زکریا) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند