• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 65208

    عنوان: خود مہتمم و متولی کو بھی اس کی اجازت نہیں کہ ادارہ میں آیا ہوا مال دوسرے کسی ادارہ میں خرچ کرے

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟ کسی دینی ادارے کے مطبخ کے منتظمین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ادارے میں آنے والے راشن : آٹا ، گھی وغیرہ کسی دوسرے دینی ادارے یا ادارے میں رہنے والے افراد کو اپنی صواب دید پر دیں؟ یا اسی ادارے میں خرچ کرنا لازمی ہے ؟ اس میں مہتمم یا متولی کی رضامندی یا اس کی اجازت کے بغیر ہونے سے حکم میں فرق آئے گا؟ مدارس میں دیئے جانے والے بکروں کو مہتمم کی رضامندی یا اس کے علم میں لائے بغیر فروخت کر کے مطبخ یا ادارے کی دیگر ضروریات کے لیے چیزیں خریدنا درست ہے ؟ مہتمم کے انتقال یا اس کے مفقود ہونے کی صورت میں مہتمم کے خاندان کی کفالت مدرسے کے فنڈ سے کرنا شرعاً جائز ہے ؟ اگر ہاں تو اس کی حد کیا ہونی چاہیے ؟ مہتمم کے مفقود ہونے کی صورت میں عارضی طور پر انتظام چلانے والے یہ سمجھتے ہوں کہ ادارے میں فلاں فلاں افراد کی کوئی ضرورت نہیں ، لیکن اس وجہ سے انہیں جواب نہ دیں کہ اگر مہتمم آئے تو ناراض ہوگا ، ان کی تنخواہ اورملازمت کو برقرار رکھیں تو ان پر شرعاً کوئی مواخذہ ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 65208

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 904-888/H=9/1437 (۱) خود مہتمم و متولی کو بھی اس کی اجازت نہیں کہ ادارہ میں آیا ہوا مال دوسرے کسی ادارہ میں خرچ کرے بلکہ ان پر واجب ہے کہ معطیین نے جس ادارہ کے لیے دیا ہے اسی میں صرف کریں کسی اور کو ان اجازت سے دوسرے ادارہ میں خرچ کرنا بدرجہٴ اولیٰ ناجائز ہوگا۔ (۲) معطیین کی طرف سے اگر اس تصرف کی اجازت ہوتو بکروں کو بیچ کر قیمت کو ادارہ کی دیگر ضروریات میں صرف کرسکتے ہیں بکرے دینے والے کس نیت سے دیتے ہیں اس کی تحقیق کرکے مدرسہ والوں کو حکم شرعی معلوم کرلینا چاہئے۔ (۳) ادارہ کی رقم سے مہتمم کے غائب ہونے یا وفات پا جانے کی صورت میں مہتمم کے اہل و عیال کی کفالت کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ تنگ دست و مفلوک الحال ہوں اور اس کے لیے خاص احباب سے چندہ کرلیا جائے اور بقدر ضرورت اہل و عیال پر صرف کردیا جایا کرے تو اس میں مضائقہ نہیں۔ (۴) عاضی طور پر انتظام چلانے والوں کو از خود یہ قدم نہ اٹھانا چاہئے مقامی یا قریبی علماء کرام کے سامنے تمام امور کو صاف صحیح پیش کرکے اولاً حکمِ شرعی حاصل کریں پھر مدرسہ کی شوریٰ یا اربابِ حل و عقد کے سامنے حکمِ شرعی کو پیش کرکے ان کی ہدایات کے مطابق اصلاح کے لیے قدم اٹھائیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند