عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 64328
جواب نمبر: 6432801-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 499-499/B=7/1437 درمختار میں علامہ اسبیجابی کا قول نقل کیا ہے کہ مسجد اوپر کی طرف آسمان تک اور نیچے تحت الثری تک مسجد کا ہی حکم رکھتی ہے، یعنی جس طرح مسجد کا اندرونی حصہ قابل احترام ہے اسی طرح مسجد کا نیچے کا حصہ زمین میں تحت الثری تک اور مسجد سے اوپر آسمان تک مسجد کا حصہ قابل احترام ہے لہٰذا ہمیں چھت کا بھی احترام کرنا چاہیے کیونکہ چھت بھی مسجد کے حکم میں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
كیا امام مسجد کے لیے ضرورت کے موقع پر پیشگی تنخواہ لینا درست ہے؟
3539 مناظرکیا ایسی مسجد میں سونا جائز ہے جس میں ظہر اور جمعہ کی جماعت ہوچکی ہو، کچھ لوگ جن کی جماعت چھوٹ گئی ہے ، ظہر کی نماز پڑھ رہے ہوں، جب کہ دوسرے لوگ سنت نماز پڑھ رہے ہوں اور کچھ تلاوت قرآن کریم کررہے ہوں؟ اگر کوئی اس مسجد میں سوتا ہو اور خراٹے لیتا ہوں؟
3221 مناظرذاتی قبرستان میں زمین کے وارث کی اجازت سے مسجد تعمیر کرنا
4535 مناظر(۱)کیا
فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مفاد عام کے پیش
نظر مسجد کو اپنی جگہ سے کسی دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں
مفاد عام کا دائرہ کار واضح فرماکر ممنون فرمائیں۔ (۲)کسی ایسی جگہ مسجد کی تعمیر ہوئی ہو جس کی زمین
عمارت کے لیے سازگار نہ ہو مثلا وہاں کی زمین نرم اور پانی والی ہو یا دلدل والی
ہو وغیرہ تو وہاں سے مسجد کی منتقلی کا کیا حکم ہے؟ (۳)پہاڑی علاقہ میں مسجد کی تعمیر ہو جائے اور
پھر آبادی میں اضافہ کی وجہ سے وہ مسجد مقامی آبادی کے لیے نا کافی ہو جب کہ مسجد
کی توسیع کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں اس مسجد کی منتقلی کا کاکیا
حکم ہے؟ مذکورہ بالا صورتوں میں اگر انتقال مسجد کی گنجائش ہو تو پہلی مسجد کی زمین
کی مسجدیت ختم ہوکر ذاتی استعمال کے قابل ہوگی یا وہ بدستور مسجد ہی رہے گی؟
مذکورہ سوالات کے جوابات کو تفصیلا قرآن و حدیث او رفقہی عبارت سے مزین فرماکر
ممنون فرمائیں۔ نیز دیگر ائمہ کے مسلک میں انتقال مسجد کی گنجائش ہے یا نہیں؟ اس
سلسلے میں ان کے مسلک پر عمل کی کس حدتک اجازت ہوسکتی ہے؟
حضرت
ہمارے محلہ میں کچھ سرکاری زمین تھی، اس پر اہل محلہ نے سرکار کی اجازت سے مسجد
تعمیر کر لی۔ مسجد بنانے کے بعد کچھ زمین بچ گئی اور وہ زمین مسجد کے لیے استعمال
نہیں ہوسکتی تھی۔ تو لوگوں نے سوچا کہ اس پر کچھ دکانیں بنائی جائیں تاکہ مسجد کی
ضروریات پوری کی جاسکیں۔ لیکن دکانوں کے لیے اہل محلہ نے چندہ نہیں دیا۔ تب اس پر
کچھ لوگوں نے اپنی جیب سے آٹھ دکانیں بنادیں۔ اس مسئلہ میں یہ اتفاق ہوا کہ دکانوں
سے متعین بارہ سو روپیہ ہر مہینہ مسجد کو دئے جائیں گے تاکہ اس سے مسجد کی ضروریات
پوری ہوسکیں اور باقی کرایہ وہ لوگ لیں گے جنھوں نے دکانیں بنائی تھیں۔ اب امام
مسجد یہ کہتے ہیں کہ چونکہ یہ زمین وقف تھی اس لیے سارا کرایہ مسجد کو جائے گا اور
وہ لوگ کرایہ نہیں لیں گے جنھوں نے دکانیں بنائی تھیں۔ جب کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ
دکانیں تو ہم نے اپنے پیسوں سے بنائی تھیں اور اس کے لیے ہم نے چندہ نہیں کیا تھا
اور ہم متعین بارہ سو روپیہ تو ہر مہینے مسجد کو دے رہے ہیں۔ اس مسئلہ پر روشنی
ڈالیں۔