• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 6321

    عنوان:

    ایک گاؤں ہے وہاں پر پہلے نماز پڑھنے کے لیے کوئی مستقل جگہ نہیں تھی تو ایک شخص نے اپنے گھر کا ایک کمرہ نمازپڑھنے کے لیے دیا۔ اب بعد میں اسی کمرہ کے سامنے ایک مستقل مسجد بنائی گئی ہے۔ تواب راستہ کے ایک جانب پہلے شخص کا دیا ہواکمرہ ہے وہ مسجد ہے اور راستہ کے اس جانب ابھی بنائی ہوئی مستقل مسجد ہے۔ تو کیا اس شخصکے دئے ہوئے کمرے کو ہمیشہ کے لیے مسجد بنائے رکھنا ضروری ہے؟ کیا اس کو دوسرے کام کے لیے استعمال نہیں کرسکتے؟ کیا اس میں مکتب شروع کرسکتے ہیں؟

    سوال:

    ایک گاؤں ہے وہاں پر پہلے نماز پڑھنے کے لیے کوئی مستقل جگہ نہیں تھی تو ایک شخص نے اپنے گھر کا ایک کمرہ نمازپڑھنے کے لیے دیا۔ اب بعد میں اسی کمرہ کے سامنے ایک مستقل مسجد بنائی گئی ہے۔ تواب راستہ کے ایک جانب پہلے شخص کا دیا ہواکمرہ ہے وہ مسجد ہے اور راستہ کے اس جانب ابھی بنائی ہوئی مستقل مسجد ہے۔ تو کیا اس شخصکے دئے ہوئے کمرے کو ہمیشہ کے لیے مسجد بنائے رکھنا ضروری ہے؟ کیا اس کو دوسرے کام کے لیے استعمال نہیں کرسکتے؟ کیا اس میں مکتب شروع کرسکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 6321

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 587=587/ م

     

    اگر مالک مکان نے اپنے گھر کا ایک کمرہ عارضی طور پر نماز پڑھنے کے لیے دیا تھا، باضابطہ مسجد کے نام سے وقف نہیں کیا تھا اور نہ مستقل مسجد بنانے کی نیت سے دیا تھا تو اس کمرے کو مسجد کا حکم نہیں، لہٰذا اس میں مکتب شروع کیا جاسکتا ہے، اور حسب ضرورت دوسرے کام کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے: ولو اتخذ في بیتہ موضعًا للصلاة فلیس لہ حکم المسجد أصلاً۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند