عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 612217
اگر كوئی خاندان قبرستان میں رہائش پذیر ہو تو كیا كرنا چاہیے؟
ایک خاندان جو کہ مالیگاؤں شہر میں رہائش پذیر ہے اور کئی برسوں یعنی تقریب پینتالیس (45) برسوں سے جس جگہ رہتے ہیں وہ اُن کی ذاتی ملکیت نہیں ہے بلکہ مقامی قبرستان ٹرسٹ کی ملکیت ہے ۔ جس شخص نے اس جگہ پر قبضہ کیا تھا وہ آج اس دنیا میں نہیں ہے لیکن اُن کی نسل ( بیٹے پوتے اور دیگر رشتہ دار آج بھی اُسی جگہ رہتے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے وہ مسلمان ایمان والے ہیں اور بظاہر کے دین سے بھی قریب ہیں ۔ اُنہی افراد میں حافظ قرآن بھی ہیں اور دین کی سمجھ بھی رکھتے ہیں بلکہ دینی مدارس میں اپنی خدمات بھی انجام دیتے ہیں اور موقعہ بہ موقعہ حافظ قرآن ہونے کی حیثیت سے امام مسجد کی غیر حاضری ملی امامت بھی انجام دیتے ہیں۔ اس ٹرسٹ کی ملکیت سے متعلق اُس خاندان کے کسی فرد کو یہ جگہ کرائے پر پاکسی رقم کے عوض نہیں دی گئی ہے اور نہ ہی قبرستان ٹرسٹ کو اس جگہ سے کوئی آمدنی وصول ہوتی ہے ۔ یعنی وہ جگہ پر انہوں نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے شہر کے ذمہ داروں اور پنچوں کے ذریعہ سمجھانے کی ٹ کوشش بھی کی گئی کہ جگہ خالی کر دیں تاک کسی اور کرایہ دارکو دیکر ٹرسٹ کی آمدنی کا ذریعہ ہو جائے مگر آج تک کوئی نتیجہ نہیں آسکا اور قبضہ داروں نے ملکیت خالی کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ لہندہ پنچ حضرات اور ذمہ داروں کے مشورہ سے یہ بات طے ہوئی ہے کہ مذکورہ صورت حال لکھ کر دارالعلوم سے فتوی کی شکل میں لکھا ہوا جواب منگوالیا جائے کہ ۔ ١)کیا ان افراد کو ایسی جگہ رہائش کرنا جائز ہے ؟ کر ان لوگوں کو کاروبار کرنا شرعی اعتبار سے کیسا ہے ؟ معاشرت کے اعتبار سے اُن سے تعلقات رکھنا جائز ہے ؟ شریعت کی روشنی میں ایسے افراد کے متعلق کیا احکامات ہیں؟ ٹرسٹ حضرات ایسے افراد کے خلاف کیا کارروائی کر سکتے ہیں ؟ شرعی اعتبار سے مذکورہ جیسے لوگوں سے متعلق کوئی رائے ہو تو تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں ۔ نوازش ہوگی۔
جواب نمبر: 612217
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1522-350/TL=11/1443
مذكورہ بالا صورت میں جس جگہ پر مذكور فی السوال خاندان ناجائز قبضہ كركے رہائش پزیر ہے اگر وہ جگہ واقعی قبرستان كے لئے وقف ہےتو ان كا اس جگہ میں رہائش اختیار كرنا ہرگز جائز نہیں ،ٹرسٹیان قبرستان اور شہر كے بااثر ومعزز حضرات كو چاہئے كہ ان كو حكمت عملی سے سمجھائیں اور سمجھاكر ان سے كسی طرح اس جگہ كو خالی كرائیں اور خالی كراكر اسے تدفین موتی ہی كے كام میں استعمال كریں اسے كسی كو كرایہ پر دیكر ٹرسٹ كی آمدنی كا ذریعہ نہ بنائیں ،آمدنی كا ذریعہ بنانا منشاء واقف كے خلاف ہے جو كہ شرعانا جائز ہے ۔واضح رہے كہ اگر سمجھانے كے باوجودوہ لوگ اس جگہ كو خالی كرنے سے منع كردیں تو ان كے خلاف قانونی كاروائی یا خالی كرانے كی كوئی اور تركیب ذمہ داران كرسكتے ہیں ۔على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 4/ 445]
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند