عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 610704
واہب كی ہبہ كردہ زمین سے زائد جگہ پر قبضہ كرنا
سوال : ایک شخص نے اپنی جگہ میں سے کچھ جگہ مدرسہ کے لیے ہبہ کی اس کا ہبہ نامہ بھی موجود ہے، اب ارباب مدرسہ نے مذکورہ شخص کی ہبہ کی ہوئی جگہ سے بھی زیادہ جگہ گھیر رکھی ہے جس کا ان کے پاس کوئی نہیں ہے تو کیا اہل مدرسہ کا یہ قدم شرعا صحیح ہے؟
جواب نمبر: 61070424-Mar-2022 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 925-702/M=08/1443
سوال میں ذكر كردہ تفصیل اگر درست اور مطابق واقعہ ہے تو اہل مدرسہ كا ایسا كرنا صحیح نہیں، جتنی زمین واہب (واقف) نے مدرسہ كےلیے دی ہے اتنی ہی زمین مدرسہ كو اپنی تحویل میں لینا جائز ہے زائد جگہ كو گھیرنا درست نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
غیر موقوفہ قبرستان کی زمین بیچنا ؟
3916 مناظرمسجد میں استعمال شدہ سامان کو بیت الخلا وغیرہ میں استعمال کرنا
2632 مناظرہم
یہ سوال[ بینکاک مسجد اور تمل مسلم ایسوسی ایشن، تھائی لینڈ ]کی جانب سے لکھ رہے
ہیں۔اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے بینکاک شہر کے قلب میں ایک پانچ منزلہ [بینکاک
مسجد] کی تعمیر کی ہے۔ اس مسجد کے گراؤنڈ، فرسٹ اور سیکنڈ فلور کو ہم پنج وقتہ
نماز کے لیے استعمال کرتے ہیں نیز اس حصہ کو ہم نے وقف بھی کردیا ہے۔ چوتھی اور
پانچویں منزل کو ہم بطور کمیونٹی ہال کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کو ہم افطار،
بیان،تقریر،تبادلہ خیال، دعوتی پروگرام، نیز انڈیا اور تھائی لینڈ سے تشریف لانے
والے منسٹروں اور سرکاری آفیسروں کو مبارک باد دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مرد
( مسلم اور غیر مسلم) چوتھی منزل پر بیٹھتے ہیں اور عورتیں تیسری منزل پر۔ پوری
عمار ت کے لیے دو علیحدہ داخلی راستے ہیں، ایک مردوں کے لیے اور دوسرا عورتوں کے
لیے۔ مسلم اورغیر مسلم دونوں کو مسجد (عبادت ہال) اور کمیونٹی ہال میں پہنچنے کے
لیے اسی راستہکو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے درمیان کچھ اختلافات ہیں کہ جس راستہ
کو مسلمان لوگ مسجد میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں کیا غیر مسلم بھی اسی
راستہ کو استعمال کرسکتے ہیں؟لہذا ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی معزز کمیٹی ہمارے شبہ کو
رفع کرنے کے لیے اور درج ذیل سوالات کے متعلق ہمارے خیالات میں اتفاق لانے کے لیے
ایک تحریری فتوی جاری کرے...
ہم لوگوں نے اپنے محلہ میں ایک ٹرسٹ قائم کیاہے، اس کے تحت مسجد کے لیے 60*90 کی جگہ ۷/ لاکھ روپئے میں خرید ناطے ہواہے اور ۷/ لاکھ میں سے تین لاکھ روپئے جگہ کے مالک کو بیانے کے طور پر اداکر دئے گئے ہیں اور اس جگہکو اس جازت سے قبضہ میں لیے لیا گیاہے۔ اب باقی بچے ہوئے روپئے (چارلاکھ) چھ مہینے میں مالک جگہ کو اداکرنا ہے۔ مسجد کی جگہ کی خریدار ی پوری نہ ہونے کی وجہ سے مسجد عارضی طور پر خریدی گئی جگہ کے سامنے کا پورا ادھا حصہ چھوڑکر پیچھے بنوائی گئی تاکہ مسجد کی پختہ اور مکمل تعمیر کا کا م بچے ہوئے حصے سے شروع کیا جاسکے اور دوران تعمیر نماز ادا کرنے میں کوئی پریشانی بھی نہ ہو۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو نئی اور پختہ تعمیر کی جائے گی، اس کا انجینئر نگ نقشہ اس طرح سے ہے کہ جو ابھی عارضی مسجد کے حصے والی جگہ ہے وہ اس کے اندرونی سجدہ گاہوں میں شامل نہیں ہے ، کیا وہ جگہ ہم وضو کے لیے حواض یا برآمدہ یا کرایا میں دینے کے لیے دوکان وغیرہ کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟ یا پھر اس کو سجدہ گاہ میں شامل کرنا ضروری ہے؟ برا ہ کرم، جواب جلد دیں چونکہ تعمیری کام رکاہواہے۔