• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 609848

    عنوان:

    مدرسہ کی زمین کی آمدنی عصری تعلیم پر خرچ کرنا؟

    سوال:

    سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں ہمارے قصبے میں ۱۹۵۲ سے ایک مدرسہ قائم ہے جس میں بچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دی جاتی ہے ۱۹۶۵ میں جب یوپی میں چک بندی ہوئی تو اس میں جو زمین زیادہ نکلی اس زمین میں سے تقریباً ۳۰ بیگھ زمین اسلامیہ اسکول کے نام سے مدرسہ کو دی اور سرکاری ملازم کی طرف سے یہ کہا گیا کہ کسی بھی دھار مک ادارے کو سرکاری زمین نہیں دی جاسکتی اس لئے اسلام ميه اسکول کے نام سے کاغذوں میں چڑھائی گئی اور تب ہی سے مدرسہ میں ۵ وی کلاس تک عصری تعلیم دیجانے لگی پھر اسکو بڑھا کر ۸ وی کلاس تک کردیا گیا تب سے عصری اور دینی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔

    اب مسئلہ یہ درپیش ہے کچھ لوگو کا یہ کہنا ہے کہ مدرسہ کی اس زمین کی آمدنی عصری تعلیم پر خرچ نہیں کی جاسکتی اور کچھ لوگو کا یہ کہنا ہے کہ وہ زمین مدرسہ کو و قف ہی نہیں کی گئی تھی بلکہ سرکاری زمین جو چکبندی میں بچی تھی وہ اسلامیہ اسکول کے نام سے دگی تھی اسلئے اس کو عصری تعلیم پر خرچ کرسکتے ہیں جبکہ موجودہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ اسکول کو مدرسہ کے ماتحت چلایا جائے اور دونوں تعلیم پر خرچ کیا جائے تک ہمارے بچے دینی اور عصری تعلیم سے فائدہ اٹھائے برائے کرم شعریت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں کس فریق کی بات درست ھے عین نوا زش ہوگی ۔ مستفتی انتظامیہ کمیٹی قصبہ تتیترو

    جواب نمبر: 609848

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 787-211T/D=08/1443

     (1)         سوال میں بعض باتوں میں ابہام ہے‏، مدرسہ جب 1952ء سے پہلے سے قائم ہے‏، پھر چك بندی كے موقع پر 30 بیگھ زمین اسكول كے نام سے دی گئی‏، تو یہ زمین اسكول كے لیے وقف ہوئی‏، مدرسے كے مقاصد الگ ہوتے ہیں‏، اس لیے اس كی آمدنی الگ مدرسے ہی میں خرچ كی جائے‏، آپ كی تحریر میں ابہام یہ ہے كہ لكھا ہے ’’تبھی سے مدرسے میں عصری تعلیم دی جانے لگی‘‘ عصری تعلیم كے لیے تو اسلامیہ اسكول كی زمین تھی؟ دوسرا ابہام یہ ہےكہ اسكول میں مدرسے كی آمدنی خرچ كرنے كی كیا وجہ؟ اسكول كے پاس تو خود ہی تیس بیگھے زمین موجود ہے۔

    (2)          جو زمین اسلامیہ اسكول كے لیے وقف كی گئی ہے وہ مدرسے سے الگ ہے اور عصری تعلیم میں استعمال ہوسكتی ہے‏، اور اس كی آمدنی بھی عصری تعلیم میں خرچ كی جاسكتی ہے۔

    (3)          اسكول كو مدرسے كے ماتحت چلایا جائے یہ بھی ہوسكتا ہے‏، لیكن دونوں كی آمدنی اور خرچ الگ الگ ركھا جائے‏، مدرسے كی آمدنی اسكول میں خرچ نہ كی جائے‏، اسكول كے نصاب میں دینیات كو بھی شامل ركھا جائے توبچے اسكول كی تعلیم كے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بہرہ ور رہیں گے۔

    نوٹ:۔ جس زمین میں مدرسہ قائم ہے اگر وہ مدرسے كے لیے وقف ہے تو پھر اس میں مدرسے كو باقی ركھنا ضروری ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند