• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 607223

    عنوان:

    (۱ - ۳): کثیر چندے کی بنا پر تولیت اور بعض متعلقہ مسائل

    سوال:

    محترام مفتیان کرام وعلماء عظام ! مادر علمی دار العلوم دیوبند، سوال : ۔ ہمارے یہاں ایک نئی مسجد بنی ہے . جگہ خرید نے اور تعمیر کرنے کے لئے محلہ والوں نے زبانی طور پر یہ اعلان کیا کہ اگر کوئی اس مسجد کی جگہ خریدنے اور تعمیر کے لئے پا نچ لاکھ روپے دینگے تو وہ اس مسجد کے ابدی ممبر ( متولی) بن جائیں گے ، اب کئی لوگ پانچ لاکھ کر کے دیئے بھی ہیں، اب اس میں اختلاف ہو رہا ہے کہ وہ لوگ حقیقت میں متولی ہوں گے یا نہیں؟ اب سوال یہ ہے کہ -

    ا -شریعت کے رو سے کیا وہ لوگ اس شرط کی وجہ سے حقیقت میں متولی بن جائیں گے یا نہیں؟

    ۲ - اگر بنے تو ان لوگوں کی موت کے بعد ان کے ورثہ نے موروثی طور پر اس تولیت کی حقدار ہو نگے یا نہیں؟

    ۳ - نیز یہ بھی بتائے کہ مذکورہ شرط کی بناء پر ان لوگوں کے عدم موجودگی یا باہر کہیں رہنے کی حالت میں ان کی اولاد یاور ثة اس تولیت کی حقدار ہوں گے یا نہیں ؟ بفضلکم جواب دے کر مشکور فرمائیں ۔ اگر ممکن ہو تو نصوص شرعیہ فقہی حوالے بھی درج فرمائیں۔

    جواب نمبر: 607223

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:59-17T/H=4/1443

     (۱): مسجد کے لیے زمین کی خریداری اور تعمیر کے لیے چندہ دینے والے حضرات ایک درجے میں واقف ِمسجد وبانی ہوتے ہیں، اور مفتی بہ قول کے مطابق واقف کے لیے تولیت کی شرط جائز ہے ؛ لہٰذا اہل محلہ کے اعلان کے مطابق پانچ لاکھ روپے یا ٹکے کاچندہ دینے والے مسجد کمیٹی کے ممبر ہوں گے؛ البتہ اہل محلہ کو محض چندہ کی بنیاد پر تولیت کا اعلان نہیں کرناچاہیے تھا؛ بلکہ تولیت کے شرعی اوصاف کی بھی شرط لگانی چاہیے تھی ۔

    (وجاز جعل غلة الوقف) أو الولایة (لنفسہ عند الثاني)وعلیہ الفتوی (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۵۸۲، ۵۸۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۳:۵۰۸ - ۵۱۰، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”وعلیہ الفتوی“: کذا قالہ الصدر الشھید، وھو مختار أصحاب المتون، ورجحہ في الفتح، واختارہ مشایخ بلخ، وفي البحر عن الحاوي: ”أنہ المختار للفتوی ترغیباً للناس في الوقف وتکثیراً للخیر“ (رد المحتار)۔

    (۲): اگر واقف حضرات اپنے بعد تولیت کے سلسلہ میں کچھ طے کردیتے ہیں تو تولیت کا نظام اُس کے مطابقہوگا، اور اگر وہ کچھ طے نہیں کرتے ہیں تو واقفین کی اولاد میں تولیت کے اہل ولائق لوگوں کو مسجد کمیٹی کا ممبر بنانا چاہیے، افضل یہی ہے، اور اگر اُن میں تولیت کے اہل ولائق نہ ہوں تو دوسروں کو بنایا جائے۔

    (ومادام أحد یصلح للتولیة من أقارب الواقف لا یجعل المتولي من الأجانب)؛ لأنہ أشفق ومن قصدہ نسبة الوقف إلیھم (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۶۳۷، ۶۳۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۳:۶۲۴، ۶۲۵، ت: الفرفور، ط: دمشق)، وانظر رد المحتار أیضاً۔

    (۳): اگر مسجد کمیٹی کے ممبران کہیں باہر چلے جاتے ہیں تو وہ جنھیں اپنا نائب بنادیں یا اپنی جگہ مسجد کمیٹی کا ممبر بنادیں تو وہ اُن کی جگہ کام کریں گے، اور اگر وہ کسی کو اپنا نائب یا کمیٹی کا ممبر تجویز نہیں کرتے ہیں تو اُن کی اجازت سے اُن کی اولاد میں جو تولیت کے اہل ولائق ہوں، اُنھیں کمیٹی کا ممبر بنالیا جائے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند