• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 606024

    عنوان:

    مسجد کے لیے وقف کی گئی زمین بیچ کر دوسری زمین لینا یا اس رقم کو دوسری مسجد میں لگانا؟

    سوال:

    ایک شخص نے اپنی جگہ مسجد بنانے کیلئے بول کر کچھ پیچھے کو ہٹا ، اسی درمیان دوسرے شخص نے اپنی جگہ مسجد کیلئے دیدی پھر پہلے شخص نے بھی پختہ طور پر مسجد بنانے کیلئے دیدی ، دونوں جگہ قریب قریب بھی کہ دو مسجد نہیں بنا سکتے اتنے فاصلہ پر بھی ہے کہ دونوں کو ایک نہیں کرسکتے ,، دریافت طلب یہ ہے کہ کیا ایک جگہ کو بیچ کر دوسری زمین کے پاس جگہ لیلے یا جگہ نہ لیکر اس کی رقم دوسری جگہ مسجد کی تعمیر وغیرہ میں لگادے ؟ یا کوء اور شکل ہو ؟ جو بھی جائز صورت ہو آگاہ فرماکر ممنون فرمائیں ، بیکراں نوازش ہوگی ۔

    جواب نمبر: 606024

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:45-16T/L=2/1443

     مذکورہ بالا صورت میں جب دو لوگوں نے اپنی اپنی زمین مسجد کے لئے وقف کردی تو اگر چہ وہ قریب قریب ہی کیوں نہ ہوں اس کے باوجود بھی وہ دونوں زمینیں مسجد کے لئے وقف ہو کر ان میں وقف تام اور لاز م ہوگیا اب ان دونوں میں سے کسی ایک جگہ کو فروخت کرکے اس کے بدلے دوسری زمین خریدنا ،یا ان میں سے ایک زمین کو فروخت کرکے اس کی رقم دوسری جگہ مسجد کی تعمیر میں لگاناجائز نہ ہوگا ؛کیونکہ جو زمین وقف ہوجاتی ہے وہ واقف کی ملکیت سے نکل کر ملک خدا میں داخل ہوجاتی ہے اور واقف کو اسے فروخت، ہبہ یا کسی جگہ سے تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا ؛اس لئے فی الحال آپ لوگ بستی اور اہل محلہ کے باہمی مشورہ سے ان دونوں میں سے کسی ایک جگہ پر مسجد تعمیر کرلیں اور دوسری جگہ کی چہار دیواری وغیرہ کرکے اسے مکتب وغیرہ میں استعمال کریں اور آئندہ ضرورت پڑنے پر وہاں پر مسجد تعمیر کرلیں ۔

    فَیَزُولُ مِلْکُ الْوَاقِفِ عَنْہُ إلَی اللَّہِ تَعَالَی عَلَی وَجْہٍ یَعُودُ نَفْعُہُ إلَی الْعَبْدِ فَیَلْزَمُ وَلَا یُبَاعُ وَلَا یُورَثُ.[درر الحکام شرح غرر الأحکام 2/ 132) (فإذا تم ولزم لا یملک ولا یملک ولا یعار ولا یرہن)(قولہ: لا یملک) أی لا یکون مملوکا لصاحبہ ولا یملک أی لا یقبل التملیک لغیرہ بالبیع ونحوہ لاستحالة تملیک الخارج عن ملکہ، ولا یعار، ولا یرہن لاقتضائہما الملک درر؛(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 4/ 352)

    (نوٹ) آپ لوگوں کو چاہئے تھا کہ وقف کرنے سے قبل حکم شرعی معلوم کرتے تاکہ اس سلسلے میں آپ لوگوں کو کوئی مفید مشورہ دیا جا سکتا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند