عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 605751
مسجد كی منزلوں كو الگ الگ مقاصد كے لیے خاص كرنا كیسا ہے؟
سوال : ایک محلے کی مسجد (قدیم) آبادی بڑھنے کی وجہ سے کئی سال بعدنمازیوں کے لئے تنگ پڑ گئی۔ متصل زمین نہ ہونے کی بناء پر دوسری جگہ مسجد(جدید) بنائی گئی۔قدیم مسجد میں مستقل امام رکھنے سے محلے والوں میں اختلاف اور تقسیم ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ اسی بنا پر محلے والوں نے قدیم مسجد کی پہلی منزل کو مسافر خواتین کے لئے خاص کرنے کی نیت کی ہے اور دوسری منزل کو(جن کا راستہ بھی الگ ہے) مدرسة البنات کے ساتھ خاص کیا ہے جن میں جز وقتی طور پر عالمات فاضلات آکر بچیوں کو پڑھائیں گی۔ اب درجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔ 1: کیا مسجد قدیم کی پہلی منزل کو بطور " مسجد برائے مسافر خواتین'' استعمال کرنا درست ہے۔اور دوسری منزل میں عالمات فاضلات آکر جز وقتی یا کل وقتی طور پر بچیوں کو پڑھا سکتی ہیں۔ 2: مسجد قدیم کو آباد رکھنے کے اور کیا طریقے ہوسکتے ہیں ؟
جواب نمبر: 605751
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1425-1002/H=01/1443
(۱) قدیم مسجد کی تمام منزلیں مسجد ہی کے حکم میں قیامت تک رہیں گی، خواہ اُس میں مستقل امام رہے یا نہ رہے، وہ ہر حال میں مسجد رہے گی اور اُس کی پہلی منزل (بلکہ کسی بھی منزل) کو مسافر خواتین کے ٹھہرانے کے لئے مختص کرنا جائز نہیں، اِسی طرح دوسری منزل (بلکہ کسی بھی منزل) کو مدرسہ البنات کے لئے خاص کرنا جائز نہیں ہے نہ جزوقتی کے طور پر نہ ہی کُل وقتی کے لئے عالمات فاضلات کا آنا اور بچیوں کو ا س میں پڑھانا جائز نہیں ونیز مسجد شرعی کے کسی حصہ میں بحالت حیض و نفاس مستورات کا داخل ہونا بھی جائز نہیں۔
(۲) اپنے اختلاف کو ختم کرکے مستقل امام کا انتظام کریں، جدوجہد کرکے لوگوں کو سمجھا بجھا کر حکمت کے ساتھ مسجد قدیم کو آباد رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے رہیں، مسجد کی آبادی کے لئے خصوصی دعاوٴں کا اہتمام کرتے رہیں، مقامی جماعت تبلیغ سے وابستہ حضرات سے درخواست کرکے مسجد کے آباد کرنے میں تعاون حاصل کریں۔ علماء کرام سے مشورہ کرکے آبادی کی فکر مسلسل رکھیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند