عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 605677
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے اپنے گاؤں میں اپنی ہی زمین کا کچھ حصہ مسجد بنانے کیلئے وقف کیا ہے ، درانحالیکہ اس گاؤں میں دو مسجدیں پہلے سے موجود و آباد ہیں اور تیسری مسجد کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کیونکہ گاؤں کی آبادی بہت زیادہ نہیں ہے ، اسی طرح وہ زمین قابل کاشت بھی نہیں ہے کہ فائدہ اٹھایا جا سکے ، نہ ہی کرائے وغیرہ پر دے سکتے ہیں، بظاہر کوئی فائدہ نہیں ہے ، زمین یوں ہی پڑی ہے ، واضح رہے کہ واقف کا انتقال بھ ی ہو چکا ہے ۔ تو کیا ایسی صورت میں مسجد کی جگہ کو بیچ کر حاصل شدہ رقم کو مذکورہ پہلی دو مسجدوں میں یا ان کے علاوہ کسی اور مسجد میں لگا سکتے ہیں یا نہیں مسئلہ کو حل فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
جواب نمبر: 605677
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1000-183T/sd=1/1443
صورت مسئولہ میں اگر زید نے مسجد بنانے کے لیے زمین وقف کردی تھی ، تو اب اس کو فروخت کرکے اس کی رقم پہلی دو مسجدوں میں یا کسی دوسری مسجد میں لگانا جائز نہیں ہے، وقف جب درست اور صحیح ہوجائے تو موقوفہ چیز قیامت تک کے لیے واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت کرنا جائز نہیں ہوتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند