• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 604886

    عنوان:

    سركاری راستے میں مُردے دفن کرنا؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین قرآن وسنت ﷺ کی روشنی میں آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں ساری دنیا گلوبل ولیج کے طور پر مانی جاتی ہے سائنس کی نت نئی ایجادات نے بنی نوع انسان کی روز مرہ کی زندگی میں ایک نیا انقلاب لایا ہے مگر اس کے باوجود آمد ورفت کیلئے سڑکوں کی افادیت میں یا پھر سڑکوں کی توسیع میں کوئی کمی یا قدغن لگانے کا انسانی ذہن شائد سوچ بھی نہیں سکتا ۔اس اکیسویں صدی کی آمد پر بھی ہماری بستی روڈ کی سہولیت سے بالکل محروم ہے آج سے ۲۰سال قبل جو روڑ۔پی ،ڈبلیو ،ڈی، محکمہ کی جانب سے تعمیر کی گء اس میں صرف دو گھرانوں کی زمین زیر استعمال ہے اور آگے مقبوضہ اہل اسلام کی زمین واقع ہہے ۔جہاں پراس وقت گاڑیوں کا اڈا بنا ہوا ہے اس سے آگے تقریبا ًساری بستی روڑ کی سہولیت سے یکسر محروم ہے اور جن لوگوں کی آگے زمین آتی ہے وہ ہر سال نت نئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرکے ساری آبادی کو برابر یرغمال بنائے ہوئے ہیں کیونکہ انہیں بنا کسی طوالت کے روڑ دہلیز تک پہنچ چکی ہے ۔محکمہ مال کے ریکارڑ کے مظابق ایک راستہ رفاع عام کے نام سے درج ہے اور اکثر جگہوں پر ۱۱فُٹ اور کسی جگہ پر ۱۸فُٹ اور ایک جگہ پر صرف ۶فُٹ درج ہے ۔ جب کہ محکمہ مال کی جانب سے نشاندہی کرنے پر یہ بات واضح ہو گء کہ کچھ زمینداروں نے اس راستے پر ناجائز قبضہ کرکے اس کی ہیئت کو ہی بدل دیا ہے ۔۔اور بعض جگہوں پر اپنے مردے دفنائے ہیں اور بعض جگہوں پر مختلف پیڑ پودے اور سبزی کی کیاریاں بنائی ہوئی ہیں اب از روئے شریعت درج ذیل سوالات کا جواب قرآن و سنت کی روشنی میں ار سال فرما کر ہماری رہنمائی فرمائیں ۔ (۱)۔عہد نبویﷺ کے دور میں راستوں کی افادیت اور کشادگی کے بارے میں کسی حدیث پاک کا حوالہ ۔۔ (۲)جو مردے قبرستان کے بجائے جان بوجھ کر یا غفلت سے راستے کی درج شدہ زمین میں دفنائے گئے ہیں شریعت کے حوالے سے ان کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ۳۔اور ان کے ورثاء جن کی زمینیں بلکل اس راستے کے متصل ہیں جس میں ان کے مردے دفن ہیں ۔اب ان پر اس کی کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے ؟ کیونکہ ان قبروں کی وجہ سے رفاع عام کا یہ راستہ منزل مقصود تک لے جانا پیچیدہ معاملہ بن گیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ُمردوں کی وجہ سے زِندوں کا گزر بسر زبردست مشکلات سے دوچار ہورہاہے ۔ ۴۔مقبوضہ اہل اسلام کی زمین جس میں کہیں دہائی قبل مردے دفنائے گئے تھے ۔اس کو گاڑیوں کیلئے بطور اڈا استعمال کرنا شرعا ًٍکیسا ہے ؟ ۵۔جو لوگ راستے کو بازیاب کرنے کیلئے کوشش کر رہے ہیں ان کا عمل شرعا ًکیسا ہے اور جو اس میں روڑے اور خوا مخواہ اڑچنیں پیدا کرنے کیلئے منافقانہ رول ادا کر رہے ہیں شرعاً ان کا یہ عمل کیسا ہے ؟

    جواب نمبر: 604886

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:802-172T/sd=1/1443

     آپ نے جوسوالات کیے ہیں وہ علاقے کے مستند ذمہ داران کے دستخط کے ساتھ ارسال کریں، باقی راستوں کے سلسلے میں اسلام کی تعلیمات نہایت اہم اور جامع ہیں، جن کی تفصیلات مختلف احادیث میں بیان کی گئی ہیں ، مثلا: ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اجعلوا الطریق سبعة اذرع (ترمذی:۱۳۵۵)راستہ کو کم از کم سات ہاتھ (چوڑا) رکھو، ایک دوسری مشہور حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:الإیمان بضع وسبعون شعبة أو بضع وستون شعبة فأفضلھا قول لا إلہ إلا اللہ وأدناھا إماطة الأذی عن الطریق (بخاری ومسلم) ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں جن میں سب سے افضل شعبہ کلمہ یعنی لا الہ الا اللہ پڑھنا ہے اور کم تر شعبہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے، ایک اور حدیث ہے: عن سہل بن معاذ عن أبیہ قال: غزونا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فضیق الناس المنازل وقطعوا الطریق فبعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم منادیا ینادی فی الناس: من ضیق منزلا أو قطع طریقا فلا جہاد لہ (أبو داو?د: ۳۹۲۰) حضرت سہل بن معاذ نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، لوگوں نے(راستہ) کی جگہ تنگ کردی اورانھوں نے راستہ روک لیا ، اللہ کے رسول ﷺ کو جب اس علم ہواتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا، جس نے اعلان کیا کہ جو شخص جگہ میں تنگی کا ذریعہ بنے یا راستہ روکے تو اس کا جہاد(قبول) نہیں ہے، حضرت امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے احیاء علوم الدین میں منکرات الشوراع کے عنوان سے ایک مستقل فصل قائم کی ہے، جس میں راستے کے منکرات کی نشاندہی فرمائی ہے۔ قال الامام الغزالی :منکرات الشوارع فمن المنکرات المعتادة فیہا وضع الاسطوانات وبناء الدکات متصلة بالأبنیة المملوکة وغرس الأشجار وإخراج الرواشن والأجنحة ووضع الخشب وأحمال الحبوب والأطعمة علی الطرق فَکُلُّ ذَلِکَ مُنْکَرٌ إِنْ کَانَ یُوٴَدِّی إِلَی تَضْیِیقِ الطُّرُقِ ( احیاء علوم الدین: ۳۳۹/۲، دار المعرفة، بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند