• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 604461

    عنوان:

    مسجد میں ایل سی ڈی لگوانا اور مسجد کو عالیشان بنانا کیسا ہے

    سوال:

    محترم مفتی صاحب مجھے ایک سوال معلوم کرنا ہے ہمارے علاقے میں ایک مسجد ہے اس مسجد میں امام صاحب نے مسجد کے تمام منزلوں میں ایل سی ڈی لگائے ہیں۔ اور تمام بیان اور لائیو نماز اس ایل سی ڈی پر پڑھائی جاتی ہے احقرجاننا چاہتا ہے کہ مسجد میں ان کاموں کے لیے مسجد کے اندر ایل سی ڈی لگوانا جائز ہے یا شریعت اس کے بارے میں کیا حکم کرتی ہے اور مسجد کوبہت زیادہ عالیشان بنانے کے لئے لوگوں سے چندہ کرنا کیسا ہے جو مسجد کی پرانی عمارت تھی وہ بہت مضبوط تھی اس کو توڑنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن اس نے توڑ دیا گیا اور اب عوام سے چندہ لیا جا رہا ہے کہ اس مسجد کواس مسجد کو ہم بہار کے ملک کے مطابق بنانا چاہتے ہیں اور اس میں دیڑ کروڑ کا یا دو کروڑ کا خرچہ بتاتے اور ہر جمعہ میں اس قدر زور و شور سے لوگوں سے چندہ وصول کرتے ہیں ایک ہزار دو ہزار دس ہزار بیس ہزار اور جو جس سے بن پڑے سو پچاس جیسا بھی جس کا حساب ہو لیکن مسجد سے خالی ہاتھ نہ جائے ایسے میں مسجد بنانے کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے کیا اس طرح سے چندہ دینا چاہیے یہ نہیں دینا چاہیے یا یہ عوام کے پیسے کی بربادی ہے؟

    جواب نمبر: 604461

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 308-270T/D=11/1442

     (۱) مسجد اور اس کی منزلوں میں ایل سی ڈی لگانا جس میں انسانوں کی تصویر بھی ظاہر ہو، جائز نہیں۔ اس میں تصویر کشی پائی جاتی ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔ حدیث میں سخت عذاب کی وعید آئی ہے۔

    (الف) جس جگہ تصویر ہو وہاں فقہاء نے نماز مکروہ لکھا ہے۔ قال فی الدر: وکرہ لبس ثوب فیہ تماثیل ذی روح وان یکون فوق رأسہ أو بین یدیہ أو بحذائہ یمنة أو یسرة أو محل سجودہ ثمثال الخ قال الشامی: وہذہ الکراہة تحریمیة (الدر مع الرد: 2/416)

    (ب) مسجد میں سامنے کی دیوار پر نقش و نگار بنانے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے کہ اس کی وجہ سے نمازی کا دھیان بٹے گا اور نماز کی یکسوئی میں خلل پیدا ہوگا۔ نیز نماز کی حقیقت خشوع و خضوع ہے یعنی توجہ نمازی کی صرف اللہ تعالی کی طرف ہو اور اپنے رکن جسے ادا کررہا ہے اس کی طرف دھیان ہو اس کے علاوہ کسی دوسری طرف دیکھنا اور توجہ کرنا مکروہ ہے۔ جب نمازی کے سامنے ایل سی ڈی لگا ہوگا تو اس کی توجہ اس طرف جائے گی اور امام کی نقل و حرکت کو دیکھے گا یہ عمل نمازی کے لئے مکروہ ہے۔ فی الدر: ولا بأس بنقشہ خلا محرابہ فإنہ یکرہ لانہ یلہی المصلی۔ ویکرہ التکلف بدقائق النقوش ونحوہا خصوصاً فی جدار القبلہ قالہ الحلبي ․․․․․․․ وظاہرہ أن المراد بالمحراب جدار القبلة (الدر مع الرد: 2/430) نقش و نگار جس بنا پر مکروہ ہے وہ بنا ایل سی ڈی میں بھی پائی جاتی ہے یعنی یکسوئی میں خلل پیدا کرنا اور توجہ کو بانٹنا۔ لہٰذا مذکورہ وجوہات سے ایل سی ڈی میں اگر تصاویر آئیں تو ان کا لگانا مسجد میں جائز نہیں۔

    (۲) مسجد کی تعمیر و توسیع میں استحکام اور پائیداری پیش نظر ہونی چاہئے بہت زیب و زینت اور نقش و نگار کی طرف توجہ نہ دی جائے۔ قال الشامی: لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم ”إن من أشراط الساعة أن تزین المساجد“ الحدیث۔ (الدر مع الرد: 2/431)

    (۳) مسجد پرانی عمارت اگر قابل استعمال ہو بوسیدہ نہ ہوئی ہو اور نمازیوں کو کوئی ضرر نہ ہو تو کسی عام آدمی کے لئے اسے توڑنا جائز نہیں۔ جب تک استعمال ہوسکے کرنا چاہئے، محض نام آوری یا ریا و نمود کے لئے دوسری تعمیر کرنا بُرا ہے۔ قال فی العالمگیری: وفی الکبری مسجد مبنی أراد رجل أن ینقضہ ویبنیہ ثانیا أحکم من البناء الأول لیس لہ ذالک؛ لأنہ لا ولایة لہ، کذا فی المضمرات۔ وفی النوازل: إلا أن یخاف أن ینہدم کذا فی التاتارخانیة (عالمگیری: 2/410)۔ ہاں اگر خود بانی یا اہل محلہ اپنے پیسے سے دوبارہ تعمیر کرنا چاہیں تو گنجائش ہے۔

    (۴) مسجد کے لئے چندہ کرنے میں مضائقہ نہیں لیکن وقار سے گرا ہوا غیر سنجیدہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے، نہ ہی اصرار اور دباوٴ سے چندہ کیا جائے، نہ ہی ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ آدمی شرما حضوری میں چندہ دے کہ اس طرح چندہ کرنا مناسب نہیں۔ حدیث میں ہے لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ (الحدیث مشکاة)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند