• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 603704

    عنوان:

    کیا وقف زمین ومدرسہ ومسجد کا نگران تبدیل کیا جا سکتا ہے ؟

    سوال:

    کیافرماتے ہیں حضرات علماء کرام مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک آدمی نے اپنی زمین میں سے کچھ حصہ زمین کامدرسہ یا مسجد کے نام فی سبیل اللہ وقف کرکے تحریر لکھ دی کہ میں نے یہ زمین فی سبیل اللہ مدرسہ یا مسجد کے نام وقف کردی اورباقاعدہ فلاں ابن فلاں کومدرسہ کی نگرانی دے دی گی اورمذکورہ وقف کنندہ نے بطور ثبوت اسٹام پیپر پر تحریری شکل میں اقرارنامہ نگران مدرسہ کے حوالے کردیاہے اوراس بات کابھی اقرار کیا ہے کہ آئندہ کے لئے نہ میرا اور نہ میرے کسی وارث کاوقف شدہ زمین کے ساتھ کوئی تعلق ہوگا اب طلب امرسوال یہ ہے کہ مذکورہ وقف کنندہ بقضائے الہی فوت ہوچکا ہے اوراس کے بچے اب اسٹام پیپرز میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں اورنگران مدرسہ سے نگرانی لیناچاہتے ہے جس کوخود مذ کورہ وقف کنندہ نے نگران مقرر کیاتھا تویہ وارثان کس حد تک وقف شدہ زمین میں تصرف کرسکتے ہیں اور نگران کے کیافرائض بنتے ہیں جس 5/6سال محنت کرکے ایک باغیچہ تیارکیاہے اورتعمیروتعلیم سے اس باغیچہ کواراستہ کیاہواہے اورواراثان وقف کنندہ بغیر کسی مشقت وتعاون کے مداخلت کرناچاہتے ہیں برائے کرم قرآن حدیث کی روشنی میں مذکورہ مسئلہ کے بارے میں رہنماء فرما کرممنون ومشکور فرمائیں۔

    جواب نمبر: 603704

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:628-758/N=1/1443

     صورت مسئولہ میں جب واقف نے خود یہ بات کہہ دی تھی کہ ”آیندہ کے لیے نہ میرا اور نہ میرے کسی وارث کا وقف شدہ زمین سے کوئی تعلق ہوگا“ تو واقف کی وفات کے بعد اُس کی اولاد کا واقف کے مقرر کردہ نگراں کو ہٹاکر خود نگراں بننا درست نہیں ہے ، اُنھیں اِس کا شرعاً ہرگز اختیار نہیں ہے؛لہٰذا اُنھیں اپنے اس ارادے سے باز آنا چاہیے؛ بلکہ اگر واقف نے صرف زمین وقف کی ہے اور عمارت کی تعمیر وغیرہ عوامی چندے سے کی گئی ہے تو اس وقف کا واقف صرف زمین کا واقف نہیں ہے؛ بلکہ اِس (مجموعی وقف)میں دوسروں کی بھی شرکت ہوگئی، اور جب اس وقف شدہ زمین پر عمارت کی تعمیر وغیرہ عوامی چند ے سے ہوئی ہے تو وقف کی مستقل کمیٹی بنائی جائے، جو وقف کی مصالح مد نظر رکھتے ہوئے دیانت داری کے ساتھ موجودہ نگراں کے بعد آیندہ دوسرے نگراں کی تعیین اور دیگر انتظامی امور کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری انجام دے۔

    وأما إذا جعلہ قیماً في حیاتہ وبعد موتہ فإنہ لا ینعزل بموتہ اتفاقاً (البحر الرائق، کتاب الوقف، ۵: ۳۲۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    (ثم) إذا مات المشروط لہ بعد موت الواقف ولم یوص لأحد فولایة النصب (للقاضي)؛ إذ لاولایة لمستحق إلا بتولیة (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۶۳۶، ۶۳۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۳: ۶۲۰ - ۶۲۴، ت: الفرفور، ط: دمشق) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند