عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 603696
مسجد کی آمدنی سے خرید کردہ مکان یا عمارت کے کسی حصے میں دکانیں بنانا ؟
کیافرمارتے ہیں مفتیان کرام شرح متین اس مسئلہ کے متعلق کہ ہمارے شہرناگپور میں جامع مسجد ہے ، مسجد کے تقریباً دس مکانات ہیں اس میں کرایہ دار رہتے ہیں۔ جسکا محل وقوع الگ الگ محلہ میں ہے اسی طرح مسجد سے منسلک ہاسٹل بھی ہے جسکی آمدنی بھی کافی اچھی ہے ان ہی مکانات میں ایک مکان مسجد کے بالکل سامنے محمد علی روڈ پر واقع ہے اس مکان سے مسجدکو تقریباً ہرماہ دوہزار روپیہ کی آمدنی تھی ۔ چندماہ قبل اس مکان پر انتظامیہ کمیٹی نے ایک چار منزلہ کامپلیکس بنایاہے جسکا کرایہ تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار روپیے ماہانہ موصول ہوگا۔ اسی طرح مسلم کثیر آبادی کے درمیان مسجد کاخریدا ہوا ایک مکان تھا، جسے انتظامیہ کمیٹی نے ۱۹۵۳ءء میں خریدا تھا۔ اور وہ مکان تقریبا پچھتر (۷۵) سال پرانا تھا اور بہت زیادہ خستہ حال تھا۔ اس لئے انتظامیہ کمیٹی نے اس کی تعمیر نوکامنصوبہ بنایا تاکہ مسجد کی آمدنی میں زبردست اضافہ ہوسے اسی سلسلہ میں انتظامیہ کمیٹی نے کرایہ دارسے بات چیت کے ذریعے اس مکان کوخالی کرایا اور اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی کہ اس عمارت میں نیچے دوکانیں رہینگی اور اوپر کے حصہ میں نماز کا انتظام رہے گا۔ ۳/جنوری ۲۰۱۹ءء کوانتظامیہ کمیٹی نے پہلاسلیپ تعمیرکیا۔ مکان مارکیٹ میں ہونے کی وجہ سے دوکان داروں کونماز کے لئے سہولت ہوگی اور نماز کے اوقات بھی جامع مسجد کے وقت سے متفرق رکھاجائیگا تاکہ ملازم حضرات اور مالک دوکان دونوں سہولت کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھ سکیں ۔ اس مکان کا کرایہ مسجد کو (۷۳۰) ساتسو تیس روپیہ ماہانہ موصول ہوتاتھا، تعمیر جدید کے بعد تقریباً (۴۰ ) چالیس ہزار روپیہ ماہانا موصول ہوگا، اس طرح انتظامیہ کمیٹی کایہ عمارت تعمیر کرناکہ نیچے کے حصے میں دوکانیں اور اوپر کے حصے میں حسبِ ضرورت نماز اور اس سے متعلق ضروریات کا انتظام ہوگا، کیاازروئے شرع اس نوتعمیر مکان میں نیچے دوکان اور اوپر نماز کا اہتمام کیاجاسکتاہے ؟
جواب نمبر: 603696
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:624-506/N=8/1442
مسجد پر وقف شدہ یا مسجد کی آمدنی سے خرید کردہ مکان یا عمارت کے کسی حصے میں دکانیں بنانا اور دوسرے حصے میں لوگوں کے لیے نماز کا انتظام کرنا جائز ہے، پھر اگر انتظامیہ کمیٹی وہ حصہ ہمیشہ کے لیے مسجد قرار دیتی ہے اور یہ دوسری مسجد پہلی مسجد کے تابع رہتی ہے، مستقل نہیں تو وہ حصہ مسجد شرعی بھی ہوگا؛ ورنہ صرف عارضی جماعت خانہ ہوگا، جس میں مسجد کی نماز کا ثواب نہیں ملے گا اگرچہ نماز ہوجائے گی۔
مستفاد: في الفتح: ولو ضاق المسجد وبجنبہ أرض وقف علیہ أو حانوت جاز أن یوٴخذ ویدخل فیہ اھ، زاد في البحر عن الخانیة: بأمر القاضي (رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۵۷۶، ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۳: ۴۹۶، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔
ولو کان بجنب المسجد أرض وقف علی المسجد فأرادوا أن یزیدوا شیئاً في المسجد من الأرض جاز ذلک بأمر القاضي (الفتاوی الخانیة علی ھامش الفتاوی الھندیة، کتاب الوقف، باب الرجل یجعل دارہ مسجداً إلخ، ۳: ۲۹۳، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، ونقلہ عنہ في البحر الرائق (آخر کتاب الوقف، ۵: ۴۲۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند