• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 603617

    عنوان:

    موقوفہ چیز کی بیع و شراء كرنا؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ " زید نے بکر کو اپنا ذاتی گھر مدرسہ کے لئے دے دیا کہ آپ اس میں اپنا مدرسہ چلائیں اور اس دوران وقف ھونے کا نہ زید نے کوئی تذکرہ کیا اور نہ بکر نے پوچھا کچھ مدت کے بعد زید کا انتقال ھو گیا تو اس کے ورثہ نے پیسوں کی تنگی کی وجہ سے بکر سے کہا کہ یہ گھر (جس میں مدرسہ ہے) آپ ہم سے قیمتا لے لیں۔ بکر نے وہ گھر مدرسہ کے لئے خریدا پھر کچھ وقت کے بعد بکر کو مدرسہ کے لئے دوسری جگہ ملی تو بکر نے "یہ والا گھر" بیچ دیا پر جب اس گھر کی زمین کو آگے فروخت کرنے کے لئے کاغذات تیار کرنے لگے تو سرکاری دستاویزات میں زید کا وقف نامہ ملے "جس میں یہ تصریح ہے کہ میں نے یہ گھر اور اس کی زمین مدرسہ کے لئے وقف کی ہے " پَر اس وقف کرنے کا علم زید مرحوم کے علاوہ اب تک کسی کو نہ تھا۔ اب مشتری ثانی مشتری اول (بکر) سے اور وہ بائع اول (زید مرحوم کے ورثہ) سے پیسوں کی واپسی کے طلب گار ہیں۔ وہ ورثاء کہ رہے ہیں کہ چونکہ ہم کو وقف کا علم بھی نہ تھا اور نہ ہی ہمارے پاس اتنی مالیت ہے کہ ہم آپ کو وہ قیمت لوٹا سکیں تو اس صورت میں شریعت کی طرف سے کیاا حکم ہے ؟ اور اس مسئلہ کا کیا حل ہے ۔

    جواب نمبر: 603617

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 585-531/M=08/1442

     صورت مسئولہ میں اگر وقف کے کاغذات جعلی نہیں ہیں اور مذکورہ گھر کا وقف ہونا پختہ طور پر ثابت ہوچکا ہے تو موقوفہ چیز کی بیع و شراء چونکہ شرعاً باطل ہوتی ہے اس لیے صحیح صورت حال واضح ہوجانے کے بعد اب لازم ہے کہ بائع اول، مشتری اول کو قیمت لوٹا دے اور مشتری اول، مشتری ثانی کو لوٹادے اگر بائع اول کے پاس سردست قیمت لوٹانے کے پیسے نہیں ہیں تو مناسب مہلت لے لے اور جلد ادائیگی کی فکر و کوشش کرے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند