• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 601529

    عنوان:

    كیا دوكانوں كی چھت پر تعمیر كی گئی مسجد‏، مسجدِ شرعی ہوسكتی ہے؟

    سوال:

    مسجد کی تعمیر کے لئے ایک جگہ دستیاب ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک تجارتی مرکز ہے ، جہاں شرعی ممانعت کے کاروبار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس تجارتی مرکز، یعنی دوکانوں کے چھت پر مسجد تعمیر کرنے کے لئے جگہ دستیاب ہے، کیا یہاں مسجد تعمیر کی جا سکتی ہے؟ براےٴ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 601529

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:285-203/N=5/1442

     مسجد شرعی صرف وہ جگہ ہوتی ہے، جس کی فوقانی یا تحتانی منزل کے ساتھ کسی انسان کا کوئی مالکانہ حق وابستہ نہ ہو، یعنی: وہ زمین تحت الثری سے عنان سما (ظاہر آسمان ) تک پوری کی پوری مسجد شرعی ہو یا کوئی ایک یا چند منزلیں مسجد شرعی ہوں اور(بنائے اول سے) فوقانی یا تحتانی دیگر منزلیں مسجد پر وقف ہوں، ان میں سے کوئی منزل کسی بندے کی ملک نہ ہو؛ لہٰذا اگر کسی بلڈنگ کی کوئی ایک منزل، نماز کے لیے خاص کردی جائے اور فوقانی یا تحتانی بقیہ منزلیں مسجد قرار نہ دی جائیں اور نہ مسجد پر وقف کی جائیں ؛ بلکہ کسی ایک یا چند لوگوں کی ملکیت ہوں تو نماز کے لیے خاص کردہ منزل مسجد شرعی نہیں ہوگی، وہ صرف مصلی (جماعت خانہ) ہوگا، پس صورت مسئولہ میں مملوکہ دکانوں کی چھت پر جو مسجد تعمیر کی جائے گی، وہ مسجد شرعی نہ ہوگی اور اس میں اعتکاف بھی صحیح ومعتبر نہ ہوگا ؛ بلکہ وہ صرف جماعت خانہ ہوگا۔

    حتی لو لم یخلص المسجد للّٰہ تعالی بأن کان تحتہ سرداب أو فوقہ بیت،أو جعل وسط دارہ مسجداً وأذن للناس بالدخول والصلاة فیہ لا یصیر مسجداً ویورث عنہ إلا إذا کان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو کانا وقفاً علیہ (الاختیار لتعلیل المختار ۲: ۵۲۴،ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔

    قولہ:”أو جعل فوقہ بیتاً الخ“ ظاھرہ أنہ لا فرق بین أن یکون البیت للمسجد أو لا، إلا أنہ یوٴخذ من التعلیل أن محل عدم کونہ مسجداً فیما إذا لم یکن وقفاً علی مصالح المسجد ،وبہ صرح فی الإسعاف فقال: وإذا کان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو کانا وقفاً علیہ صار مسجداً اھ شرنبلالیة۔ قال فی البحر: وحاصلہ أن شرط کونہ مسجداً أن یکون سفلہ وعلوہ مسجداً لینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالی: ”وأن المساجد للہ“بخلاف ما إذا کان السرداب والعلو موقوفاً لمصالح المسجد فھوکسرداب بیت المقدس، وھذا ھو ظاہر الروایة، وھناک روایات ضعیفة مذکورة فی الھدایة (رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    لو بنی فوقہ بیتاً للإمام لا یضر؛ لأنہ من المصالح، أما لو تمت المسجدیة ثم أراد البناء منع إلخ تاتر خانیة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۸)، ومثلہ في کتب الفقہ والفتاوی الأخری۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند