• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 601406

    عنوان: مسجد و مدرسہ کے عمومی چندے سے انگریزی بیت الخلاء بنانا 

    سوال:

    فتاویٰ قاسمیہ جلد 18 صفحہ 172 سوال نمبر 7967 میں فتوٰی موجود ہے جس میں مسجد و مدرسہ کے عمومی چندے سے انگریزی بیت الخلاء بنانا جائز نہیں ہے ۔ جب کہ حال ہی میں دارالعلوم دیوبند کے فتوی نمبر 600399 مسجد و مدرسہ کے عمومی چندے سے انگریزی بیت الخلاء بنانا جائز قرار دیا گیا ہے ۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کس فتوے ٰ پر عمل کیا جائے ۔ ذیل میں دونوں فتوے ٰ نقل کر دیے گئے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔ سوال نمبر: 7967 کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں :کہ یہاں ایک مسجد تعمیر ہوئی ہے ، جس میں انتظامیہ نے انگریزی بیت الخلاء بنوادیا ہے ، جس کے بارے میں کافی چہ میگوئیاں ہوتی رہتی ہیں ،کہ مساجد ومدارس یہ دین کے قلعے مانے جاتے ہیں ، اس میں اس قسم کی چیزیں نہ ہونی چاہئے ، جبکہ انتظامیہ جواب میں کہتے ہیں کہ معذورین کیلئے بنوایا گیاہے ، واضح ہوکہ بمبئی جیسے شہر میں بھی نہ کسی مدرسہ میں اس قسم کا بیت الخلاء ہے ، نہ مسجد میں بعض لوگ اس کے جواز میں سعودی عرب کی مثالیں دیتے ہیں ، کہ وہاں اس قسم کے بیت الخلاء بنے ہوئے ہیں ، بہر حال شریعت مطہر ہ کا اس بارے میں کیا حکم ہے ؟ المستفتی:ابو الحسن ،سیتامڑھی ، مسجد صفہ منی ممبئی ،انڈیا باسمہ سبحانہ تعالیٰ الجواب وباللهّٰ التوفیق:مساجد ومدارس کے عمومی چندے سے انگریزی بیت الخلاء بنانا جائز نہیں ہے ، البتہ اگر ضرورت ہو تو خاص اسی ضرورت کیلئے مستقل چندہ کرلیا جائے یا کسی صاحب خیر کے ذریعہ سے بنوالیا جائے ۔ إن مراعاة غرض الواقفین واجبة ۔ (شامی، کتاب الوقف ، مطلب فی مراعاة غرض الواقفین واجبة کراچی ۴۴۵/۴، زکریا۶۶۵/۶) فقط والله سبحانہ وتعالیٰ اعلم کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا الله عنہ ۱۷/۲/۱۴۲۱ھ (الف فتویٰ نمبر:۳۴/۶۴۹۸) الجواب صحیح: احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ ۱۷/۲/۱۴۲۱ھ سوال نمبر: 600399 کیا فرماتے تھے مفتیانِ اکرم مسئلہ ذیل کے بارے میں تعمیرِ مسجد کے دوران انتظامیہ نے مسجد کے عمومی چندے سے معذورین کے لئے انگریزی بیت الخلاء تعمیر کروایا ہے ۔ اب بعض حضرات اس کے مخالف ہے اور بعض موافق براہ کرم رہبری فرمائیں کہ مساجد و مدارس کے عمومی چندے سے انگریزی بیت الخلاء بنانا کیسا ہے ۔ جواب نمبر: 600399 بسم اللہ الرحمن الرحیم Fatwa : 157-93/B=02/1442 جو لوگ بوڑھے ہیں یا اُن کے گھٹنوں میں دَرد رہتا ہے ، انھیں اٹھنے بیٹھنے میں دِقت ہوتی ہے تو ایسے لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے انگریزی بیت الخلاء (کموڈ ایک دو) بنانا مسجد میں جائز ہے ۔ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام میں اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے اندر بھی بنے ہوئے ہیں۔ جو لوگ مخالفت کرتے ہیں ان کی مخالفت صحیح نہیں ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

    جواب نمبر: 601406

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 383-42T/B=04/1442

     جو لوگ مسجد و مدرسہ کے لئے چندہ دیتے ہیں عموماً ان کی طرف سے تمام ضرورت کی تعمیر کی دلالةً اجازت ہوتی ہے ا س لیے چندہ کے پیسوں سے وضوخانہ، پیشاب خانہ، غسل خانہ اور بیت الخلاء سب کچھ بنانا درست ہے۔ بوڑھوں اور گھٹنوں کے مریض کی راحت کے خیال سے انگریزی بیت الخلاء بنانا بھی بلاشبہ جائز ہے۔ اور اب اسی کا رواج زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں بھی بہت سے مدرسوں اور مسجدوں میں بنے ہوئے ہیں ۔ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور میں بھی بنے ہوئے ہیں۔ اور بنگلہ دیش میں تو ہزار ہا ہزار مدرسے میں تقریباً سب ہی میں بوڑھوں کی رعایت سے بنے ہوئے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ صحیح ہے۔ مفتی شاہی نے جو ناجائز لکھا ہے یہ اس صورت میں ہے جب کہ چندہ دینے والا اپنی رقم کو کسی خاص حصہ میں لگانے کی صراحت کرے اور دوسرے کام میں لگانے سے منع کرے تو اس وقت اس کی صراحت کے مطابق ہی اس کا پیسہ لگایا جائے گا۔ وضو خانہ، غسل خانہ، پیشاب خانہ، لیٹرین وغیرہ بنوانے میں لگانا جائز نہ ہوگا۔ اور جب چندہ دہندگان کی طرف سے کوئی تخصیص نہ ہو تو پھر مسجد و مدرسہ کی جملہ ضروریات میں لگا سکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند