• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 601072

    عنوان:

    نقشہ میں مسجد کی جگہ مخصوص کرنے سے وہ جگہ مسجد کیلئے وقف ہوتی ہے یا نہیں؟

    سوال:

    ایک جگہ پر کچھ لوگ مل کر ایک سوسائٹی بنارہے ہیں۔انہوں نے اس سوسائٹی والی جگہ کے نقشہ میں ایک جگہ مسجد کیلئے مخصوص کی کہ اس جگہ ہم مسجد بنائیں گے ،چونکہ سوسائٹی والی جگہ سے تھوڑا آگے ایک یتیم خانہ ہے تو اب سوسائٹی مالکان کہہ رہے ہیں کہ سوسائٹی کے نقشہ میں جو جگہ ہم نے مسجد کیلئے خاص کی تھی وہاں پر مسجد نہیں بناتے بلکہ اس کے بجائے یتیم خانہ کے قریب مسجد بناتے ہیں یہ بہتر رہے گا جبکہ اس صورت میں یتیم خانہ کے مالکان کہتے ہیں کہ اگر آپ لوگ یہاں مسجد بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ ہم خود ہی کرلیں گے ۔تو ایا ایسی صورت حال میں یتیم خانہ کے قریب مسجد بنانا کیسا ہے ؟اور نقشہ میں جو جگہ مسجد کیلئے متعین کی تھی وہ مسجد کیلئے وقف ہوگئی تھی یا نہیں؟اگر ہوگئی تھی تو مسجد کو اس جگہ سے دوسری جگہ پر شفٹ کرنا کیسا ہے ؟ قرآن و حدیث و عبارات فقہائے کرام کی روشنی میں تفصیلی(مدلل) جواب عنایت فرماکر اجر پائیں۔جزاکم اللّٰہ خیرا

    جواب نمبر: 601072

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:182-151/N=4/1442

     (۱، ۲): صورت مسئولہ میں اگر سوسائٹی کے مالکان نے اپنی کوئی مملوکہ ومتعینہ جگہ مسجد کے لیے یہ کہہ کر خاص ومتعین کردی تھی کہ ہم نے یہ جگہ مسجد کے لیے وقف کردی یا مسجد کے لیے خاص ومتعین کردی تو وہ جگہ مسجد کے لیے وقف ہوگئی، اب نہ تو اس جگہ کا کسی دوسری جگہ سے تبادلہ درست ہے اور نہ مسجد کے علاوہ کسی دوسرے کام میں لانا درست ہے۔ اور اگر صورت واقعہ کچھ اور ہو تو پوری تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال کیا جائے۔

    ویزول ملکہ عن المسجد والمصلی بالفعل وبقولہ:”جعلتہ مسجداً“ عند الثاني إلخ (الدر المختار مع حاشیة الطحطاوي علیہ، کتاب الوقف، ۲: ۵۳۴، ۵۳۶، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)۔

    (وبقولہ):الواو بمعنی أو،فیکفي عندہ أحدھما،قال فی الملتقی وشرحہ: وعن أبي یوسف: یزول بمجرد القول مطلقا، وقدم فی التنویر والدرر والوقایة وغیرھا قول أبي یوسف، وعلمت أرجحیتہ فی الوقف والقضاء ولم یرد أنہ لا یزول بدونہ لما عرفت أنہ یزول بالفعل أیضاً بلا خلاف، واعلم أنہ لا یشترط في تحقق کونہ مسجداً البناء إلخ (حاشیة الطحطاوي علی الدر)۔

    قولہ:”بالفعل“:أي: بالصلاة فیہ، ففي شرح الملتقی أنہ یصیر مسجداً بلا خلاف،………ولقائل أن یقول:اذا قال جعلتہ مسجداً فالعرف قاض وماض بزوالہ عن ملکہ أیضاً غیر متوقف علی القضاء وھذا ھو الذي لا ینبغي أن یتردد فیہ۔ نھر۔…۔وفی الدر المنتقی :وقدم فی التنویر والدرر والوقایة وغیرھا قول أبي یوسف،وعلمت أرجحیتہ فی الوقف والقضاء اھ (رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۵۴۵، ۵۴۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۳: ۴۲۸- ۴۳۰، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ:”أما لو تمت المسجدیة “:أي: بالقول علی المفتی بہ أو بالصلاة فیہ علی قولھما ط (رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۵۴۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۳: ۴۳۴، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    فإذا تم ولزم لا یملک ولا یملک ولا یعار ولا یرھن (تنویر الأبصار مع الدر المختار و رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۵۳۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۳:۴۱۶، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند