عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 601062
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کیے بارے میں ہمارے یہاں مسجد کی دوکانیں کرائے پر لوگوں کے پاس دس بیس سال سے چلی آرہی ہیں اب ایک کرائے دار نے اپنا قبضہ سترہ لاکھ میں بیچ دیا اور ملکیت مسجد کی ہے اور خریدار مسجد کو متعینہ کرایہ دیگا جو معمولی سا ہے لیکن مسجد اس سے خالی نہی کراسکتی تو ایسی صورتحال میں مسجد کی دوکان کا قبضہ بیچنا درست ہے اور بائع ایک تہائی رقم مسجد کو بھی دے گا، سوال یہ ہے کہ اس رقم کا استعمال بائع کے لئے کیسا ہے اور قبضہ بیچنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب نمبر: 601062
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 167-143/D=04/1442
مسجد کی دکان مسجد پر وقف ہے اور جو چیز وقف ہوتی ہے اس کا فروخت کرنا جائز نہیں، لہٰذا کسی دکاندار کا اپنے طور پر مسجد کے دکان کی کرایہ داری فروخت کردینا جائز نہیں ہے۔ اس سے حاصل رقم کرایہ دار کے لئے استعمال کرنا حرام ہے۔ فقہاء کرام نے اجارہ طویلہ (لمبی مدت کے لئے کرایہ) پر دینے کو منع کیا ہے۔ اور یہاں تو کرایہ دار نے مسجد کا حق ملکیت ہی زائل اور ختم کر دیا۔ اب مسجد صرف کرایہ ہی لیتی رہے گی، یہ قطعاً جائز نہیں۔ اس میں وقف کا ابطال ہے، لہٰذا اس معاملہ کو ختم کیا جائے اور دکان پورے طور پر مسجد کے تصرف اور اختیار میں واپس کی جائے۔
سوال میں مذکور کرایہ دار اپنی وصول کردہ رقم میں سے ایک تہائی مسجد کو دینے کی بات کر رہا ہے یہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ متولی مسجد کے لئے بھی مسجد کی وقف زمین، مکان دکان کا فروخت کرنا جائز نہیں۔
قال فی الدر: فإذا تم لزم لا یملک ولا یملک ولا یعار ولا یرہن ۔ (الدر مع الرد: ۳/۴۰۲، کتاب الوقف، کوئٹہ)
قال فی الدر: ولم تزد (الاجارة) فی الأوقاف علی ثلاث سنین فی الضیاع وعلی سنة فی غیرہا ۔ (الدر مع الرد: ۵/۴، کتاب الإجارة، کوئٹہ)
قال ایضا: الفتویٰ علی إبطال الإجارة الطویلة ولو بعقود وأي لتحقق المحذور المار فیہا، وہو أن طول المدة یوٴدي إلیٰ إبطال الوقف کما فی الذخیرة: ۳/۴۳۵، کتاب الوقف، کوئٹہ ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند