• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 60088

    عنوان: مسجد میں حرام پیسہ لگانا

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں ہمارے یہاں مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کیا جاتا ہے جس میں اکثر ناجائز پیسہ جمع ہو جاتا ہے . یہاں پر اکثر لوگوں کا ناجائز کاروبار ہے حلال کمائی والے حضرات بہت کم ہیں۔ جن سے حلال پیسہ بہت کم اکٹھا ہوتا ہے . اب یہاں پر دونوں قسم کا مال مسجد میں لگانا مجبوری بن گیا ہے جس سے بچنا مشکل ہے ۔ بعض اوقات جائز ناجائز مال کا پتا ہی نہیں چلتا...کیا اس صورت میں اس قسم کا مال مسجد میں لگا سکتے ہیں ؟جو مال مسجد میں لگ چکا ہے اس میں نماز کا کیا حکم ہے ؟امام کی تنخواہ بھی مسجد کے اس مشکوک پیسہ سے دی جاتی ہے . کیا یہ درست ہے ؟ ان کی امامت کا کیا حکم ہے ؟امام کی تنخواہ حرام پیسہ سے دی جاتی ہے کیا یہ تنخواہ امام کے لئے حلال ہے ؟

    جواب نمبر: 60088

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 914-91/B=9/1436-U جن لوگوں کا ناجائز کاوربار ہے ان کا چندہ مسجد کے لیے لینا اور مسجد میں لگانا یا امام کی تنخواہ دینا جائز نہیں۔ إن اللہ طیب لا یقبل إلا الطیب جس مسجد کی تعمیر میں ناجائز پیسہ لگایا گیا ہے، اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ --------------------------- جواب صحیح ہے، البتہ مسجد کی تعمیر میں جتنا ناجائز پیسہ لگا ہے اگر اتنا پیسہ دینے والے کو واپس کردیا جائے یا بلانیت ثواب غربا ومساکین کو دیدیا جائے تو کراہت ختم ہوجائے گی۔(ن)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند