• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 600769

    عنوان:

    مسجد كے مال میں مؤذن یا امام كا بلا اجازت تصرف كرنا؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علماء دین ، مسئلہ دین کے ذیل میں کے زید کسی مسجد میں تقریباً دس سالوں سے مؤذن کی خدمات انجام دے رہے ہیں اس دوران ان کی تنخواھ کے لین دین میں کچھ پیچیدگیاں پیش آئی ، وہ پیچیدگی یہ ہوئی کی مسجدِ کے جانب سے ان کی تنخواھ تین ہزار روپے تے کیے گئے تھے دس سال پہلے ، جو اُنہونے قبول کرنے کے بعد خدمات انجام دینا شروع کیا ، جس وقت اُنہوں نے خدمات شروع کی اس وقت مسجد کی کمیٹی میں صرف صدر موجود تھے اور چندہ کرنے والا مؤذن کے علاوہ کوئی اور نا تھا،صدر کی اجازت سے اُنہوں نے چندہ شروع کیا اس شرط پر کی مقررہ تنخواہ سے زائد رکم کو مسجد کے بیت المال میں جمع کر دیں گے لیکن اس دوران تقریباً 4 چار سالوں تک ، جیسا کہ مؤذن صاحب نے بتایا کہ کچھ مہینے کے علاوہ کبھی بھی ان کی تنخواہ پوری نہیں مل سکی ، کبھی دو ہزار، کبھی پندرہ سو ، کبھی بارہ سو ہے ہو پائی اور اوسطاً ا ن کے حساب سے ہر مہینے تقریباً ایک ہزار روپے 1000 اُنھیں کم ہے ملتے رہے ،* جس کی اطلاع اُنہوں نے برابر صدر کو دی ، مگر اُنہوں نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی اور ہے سلسلہ چار سال تک چلتا رہا ، اس کی گواہی صدر صاحب نے اور ایک اس وقت کے ایک شخص نے بھی دی ہے ۔ لیکن اس کے بعد تقریبًا 6 چھہ سال سے مؤذن صاحب کو اُن کی پوری تنخواہ پابندی سے ادا کی جا رہی ہے جس کا اقرار مؤذن صاحب نے بھی کیا ہے ۔ لیکن اس دوران پوری تنخواہ پانے کے بعد بھی مؤذن صاحب نے *تقریباً چار لوگوں سے ہر ماہ سو روپے وصولی کیے ، مسجد کے ماہانہ چندے کی شکل میں ، مگر اُنہونے اس کی کوئی رسید ان لوگوں کو نہیں دی اور نا ہی اس کی اطلاع ذمّے داروں کو دی اور اسے اپنی بقایا تنخواہ کے عوض میں اپنے پاس رکھ لیا* ، جس کا اقرار خود مؤذن صاحب نے کیا ہے سب کی موجودگی میں ۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو گزشتہ شروع کے چار سالوں میں مؤذن صاحب کے حساب کے مطابق تقریباً 45000 ہزار روپے مسجد کی جانب سے بنتی ہے اور جو اُنھیں ملنا چاہیے ۔ اور ادھر چھہ سالوں میں جو چندہ مؤذن صاحب نے بغیر رسید کے لوگوں سے وصولی کی ہے وہ تقریباً چار سو روپے مہینے کے حساب سے 28800 روپے ہوتے ہیں ۔

    اب موجودہ صورتِ حال میں کونی صورت اپنائی جائے جس سے جواز کی صورت نکل آئے؟ چونکہ اب نئی کمیٹی بن چکی ہے اور یہ مسئلہ نئی کمیٹی کے سامنے پیش آ رہا ہے ، اُپر لکھے ہوئے سوال میں یہ بھی دھیان دیا جائے کہ مؤذن نے بغیر اجازت چار سو روپے چھپاکر وصولی کی ہے اور اپنے مفات میں خرچ کیا ہے ، کیا اُنھیں دوشی مانا جائے گا یہ نہیں؟ کیا اُن کے پیچھے نماز درست ہوگی یہ نہیں؟ کیا اُنھیں رکم واپس کرنے ہوگی یہ نہیں ؟

    جواب نمبر: 600769

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 242-42T/H=03/1442

     بہتر یہ تھا کہ موٴذن کا بیان بھی ہمرشتہ استفتاء کردیتے معلوم نہیں کہ مسجد کے چندہ دہندگان کو رسید دینے کا معمول پہلے سے چلا آرہا تھا یا نہیں اگر پہلے سے چلا آرہا تھا تو موٴذن صاحب کو رسید دینا چاہئے تھا اور ذمہ داران کو بھی بتلا دینا تھا مگر بقول آپ کے بہ سلسلہٴ تنخواہ موٴذن صاحب مسجد کی طرف پینتالیس ہزار (45000) روپئے ہیں اور انہوں نے اٹھائیس ہزار (28000) روپئے وصول کئے ہیں اب کمیٹی نئی بن گئی ہے معلوم نہیں پہلے کمیٹی تھی یا نہیں اور تھی تو کس درجہ میں تھی؟ بہرحال نئی کمیٹی اگر سابقہ حساب کتاب صاف کرے اور جو کچھ موٴذن صاحب کا باقی رہ گیا ا س کو اداء کردے اور جو غلطی ان سے ہوگئی اس کو کچھ بڑا جرم قرار نہ دے کر ان کی طرف سے معذرت قبول کرکے معاملہ کو رفع دفع کردے اور وہ نماز پڑھائیں تو ان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے تو یہ صورت نئی کمیٹی کے حق میں بہتر معلوم ہوتی ہے؛ البتہ آئندہ کے لئے اصول ضوابط مقرر کرکے موٴذن صاحب کو ان کے پابندی کرنے پر آمادہ کرلے تاکہ آئندہ اس قسم کی غلطی کا بھی خطرہ نہ رہے کہ جو پیش آگئی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند