• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 600672

    عنوان:

    كیا امام مسجد کے لیے ضرورت کے موقع پر پیشگی تنخواہ لینا درست ہے؟

    سوال:

    موجودہ صورتحال میں مساجد ومدارس بند ہیں بلکہ امام اور چند مقتدی نمازپڑھتے ہیں امام کا صرف مسجد کی تنخواہ پرگذرنہیں ہورہا ہے تو کیا ایسی صورت میں امام مسجد سے پیشگی تنخواہ لے سکتا ہے جبکہ مسجد میں پیسہ موجود ہے ؟ مفصل جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔

    جواب نمبر: 600672

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:187-118/sn=3/1442

     صورت مسئولہ میں کسی قابل ِاعتماد آدمی کی ضمانت پر امام صاحب کوپیشگی تنخواہ دینے کی گنجائش ہے ۔ واضح رہے کہ یہ رقم قرض ہوگی ، اگر کسی وجہ سے امام صاحب خدمت نہ کرسکیں تو ان کے ذمے ان پیسوں کو لوٹانا واجب ہوگا ،اگر وہ نہ لوٹائیں تو ضامن کی یہ ذمے داری ہوگی ۔

    مستفاد: فإن قلت: إذا أمر القاضی بشیء ففعلہ ثم تبین أنہ لیس بشرعی أو فیہ ضرر علی الوقف ہل یکون القیم ضامنا قلت: قال فی القنیة طالب القیم أہل المحلة أن یقرض من مال المسجد للإمام فأبی فأمرہ القاضی بہ فأقرضہ ثم مات الإمام مفلسا لا یضمن القیم. اہ.

    مع أن القیم لیس لہ إقراض مال المسجد قال فی جامع الفصولین لیس للمتولی إیداع مال الوقف والمسجد إلا ممن فی عیالہ ولا إقراضہ فلو أقرضہ ضمن وکذا المستقرض وذکر أن القیم لو أقرض مال المسجد لیأخذہ عند الحاجة وہو أحرز من إمساکہ فلا بأس بہ وفی العدة یسع المتولی إقراض ما فضل من غلة الوقف لو أحرز. اہ. [البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحة الخالق وتکملة الطوری 5/ 409،مطبوعة مکتبة زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند