• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 600602

    عنوان:

    امام اور کمیٹی کا آئے دن مسجد میں ایک دوسرے کے خلاف شر وفساد برپا کرنا

    سوال:

    میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک مسجد جوکہ تقریباً 30 سالہ پرانی بنی ہوئی ہے ، جس کا انتظام پہلے علاقے کا سربراہ کے پاس ہوتا تھا، لیکن گزشتہ 10 سالوں سے اس مسجد پر ایک کمیٹی بنائی گئی ہے ، کمیٹی بن نے کے بعد پورے علاقے نے اس کو تسلیم کیا لیکن اس کے بعد ہماری مسجد میں ہر چند روز بعد چھوٹی چھوٹی باتوں پر شر و فساد برپا ہوتا، اگر کمیٹی مسجد کے متعلق کوئی فیصلہ کرتی ہے تو امام مسجد اسکو تسلیم کرنے سے انکار کر کے اپنے گروپ سے شر و فساد برپا کر دیتا ہے اور کبھی امام مسجد کوئی ایسا کام کر لے تو کمیٹی اس پر شر و فساد برپا کر دیتی ہے ، آپ جناب کی خدمت میں گزارش ہے کہ اب ہمیں اپنی نمازوں کی فکر لاحق ہوگئی ہے ، کیا ایسی مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟ جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے ۔

    جواب نمبر: 600602

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:143-78/N=3/1442

     اگر امام میں فسق وفجور کے قبیل کی کوئی چیز نہیں ہے اور آپ حضرات امام اور کمیٹی کے اختلاف میں غیر جانب دار ہیں تو آپ حضرات نے اس مسجد میں جو نمازیں پڑھی ہیں، وہ بلا کراہت ہوگئیں، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اور آیندہ بھی جو نمازیں پڑھیں گے ، وہ بلا کراہت درست ہوں گی؛ البتہ مسجد کی کمیٹی اور امام صاحب دونوں کا رویہ قابل افسوس ہے، دونوں کو چاہیے کہ کسی بھی اختلاف کے موقعہ پر کسی معتبر ومستند مقامی مفتی کوحکم بنالیا کریں اور وہ جو حکم شرعی بتائیں، دونوں اُس پر عمل کریں، دونوں کو شریعت پر چلنا چاہیے، گروپ بازی کرکے مسجد میں شر وفساد برپا کرنا انتہائی قابل مذمت چیز ہے۔ اللہ تعالی دونوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائیں۔

    عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ”ثلاثة لا ترفع لھم صلاتھم فوق روٴوسھم شبراً: رجل أم قوما وھم لہ کارھون، وامرأة باتت وزوجھا علیھا ساخط وأخوان متضارمان“، رواہ ابن ماجة (مشکاة المصابیح، کتاب الصلاة، باب الإمامة، الفصل الثالث، ص: ۱۰۰، ۱۰۱، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    (ولو أم قوما وھم لہ کارھون، إن) الکراھة (لفساد فیہ أو لأنھم أحق بالإمامة منہ کرہ) لہ ذلک تحریماً لحدیث أبي داود:” لا یقبل اللہ صلاة من تقدم وھم لہ کارھون“، (وإن ھو أحق لا) والکراھة علیھم (الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲:۲۹۷، ۲۹۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۳: ۵۲۷، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند