• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 600367

    عنوان:

    لاک ڈاؤن میں گھر جاکر نہ واپس آنے والے تنخواہ کے حقدار ہیں یا نہیں ؟

    سوال:

    لاک ڈاؤن کے زمانے میں کیا ائمہ حضرات تنخواہ کے مستحق ہوں گے ؟ ایسے امام جو لاک ڈاؤن سے پہلے اپنے گھروں پر رخصت لے کر جا چکے ہیں پھر اچانک لاؤڈ ہوگیا پھر ان کی واپسی عید الفطر تک نہ ہوئی اور عارضی امام رکھا گیا اور اس کو تنخواہ بھی دی جاتی رہی تو مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ اصل امام کتنے دنوں کے تنخواہ کے مستحق ہوں گے گھر اور ان کی مسجد کے درمیان کا فاصلہ تقریبا پونے چار سو کلومیٹر کا ہے اپنے صوبہ کو چھوڑ کر دوسرے صوبے میں امامت کروا رہے ہیں اگر ہوں گے تنخواہ کے مستحق تو کیا عید الفطر تک مستحق ہوں گے ۔

    جواب نمبر: 600367

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:102-39T/sn=3/1442

     سوال میں جو تفصیل آپ نے تحریر کی ہے اس کی رو سے صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ امام صاحب نے جب سے مسجد حاضر ہوکر اپنی ذمے داری شروع کی، اس کے بعد سے وہ مکمل تنخواہ کے حقدار ہیں، اس سے پہلے معروف رخصت کے ایام کے علاوہ جتنے روز وہ گھر پر رہے ، بایں طور کہ وہ مسجد نہیں آسکتے تھے ، اس کی تنخواہ کے وہ اصولا حقدار نہیں ہیں ؛ باقی اگر مسجد کے پاس اتنی گنجائش ہے کہ تمام دنوں کی تنخواہ دے سکتی ہے تو امام صاحب کی سابقہ خدمت کے پیش نظر نیز تاکہ وہ آئندہ وہ خوشدلی سے خدمت کریں ، بقیہ دنوں کی تنخواہ دے دینی چاہیے ۔گو ضروری نہیں ہے ۔

    ((المادة 425) الأجیر یستحق الأجرة إذا کان فی مدة الإجارة حاضرا للعمل)الأجیر یستحق الأجرة إذا کان فی مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا یشرط عملہ بالفعل ولکن لیس لہ أن یمتنع عن العمل وإذا امتنع لا یستحق الأجرة.ومعنی کونہ حاضرا للعمل أن یسلم نفسہ للعمل ویکون قادرا وفی حال تمکنہ من إیفاء ذلک العمل.أما الأجیر الذی یسلم نفسہ بعض المدة، فیستحق من الأجرة ما یلحق ذلک البعض من الأجرة.

    (انظر المادة 470) مثال ذلک کما لوآجر إنسان نفسہ من آخر لیخدمہ سنة علی أجر معین فخدمہ ستة أشہر ثم ترک خدمتہ وسافر إلی بلاد أخری ثم عاد بعد تمام السنة وطلب من مخدومہ أجر ستة الأشہر التی خدمہ فیہا؛ فلہ ذلک ولیس لمخدومہ أن یمنعہ منہا بحجة أنہ لم یقض المدة التی استأجرہ لیخدمہ فیہا.(البہجة) .وإنما لایشترط عمل الأجیر الخاص بالفعل کما ورد فی ہذہ المادة؛ لأنہ لما کانت منافع الأجیر مدة الإجارة مستحقة للمستأجر وتلک المنافع قد تہیئت والأجرة مقابل المنافع، فالمستأجر إذا قصر فی استعمال الأجیر ولم یکن للأجیر مانع حسی عن العمل کمرض ومطر فللأجیر أخذ الأجرة ولولم یعمل (الزیلعی) .وعلی ذلک فللراعی الذی استؤجر علی أن یکون أجیرا خاصا أخذ الأجرة تامة ما دام حاضرا للعمل ولو ہلک بعض المواشی، أو کلہا (رد المحتار)․ (درر الحکام فی شرح مجلة الأحکام 1/458،ط:دارالجیل)

    رد المحتار علی الدر لمختار میں ہے :

    ولیس للخاص أن یعمل لغیرہ، ولوعمل نقص من أجرتہ بقدر ما عمل فتاوی النوازل،(وإن) (ہلک فی المدة نصف الغنم أو أکثر) من نصفہ (فلہ الأجرة کاملة) ما دام یرعی منہا شیئا، لما مر أن المعقود علیہ تسلیم نفسہ جوہرة، وظاہر التعلیل بقاء الأجرة لو ہلک کلہا وبہ صرح فی العمادیة..........(قولہ وظاہر التعلیل إلخ) أی فقول الجوہرة ما دام یرعی منہا شیئا لا مفہوم لہ. ورأیت بخط بعض الفضلاء أن مراد الجوہرة تحقیق تسلیم نفسہ بذلک لا شرط استحقاق الأجر کما فہم المصنف والمتون والتعلیل یفیدہ اہ وہو حسن. (قولہ وبہ صرح فی العمادیة) وہو الموافق لتصریح المتون بأنہ یستحق الأجر بتسلیم نفسہ فی المدة وإن لم یعمل․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین 9/ 96،مبحث الأجیر الخاص، مطبوعة:مکتبة زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند