عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 59692
جواب نمبر: 5969201-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 833-663/D=8/1436-U روم فریشر میں الکوحل یا دوسری کوئی نجس چیز شامل نہیں ہے تو اس کے چھڑکاوٴ کی گنجائش ہے، یعنی جائز ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
قبرستان كے درخت كا پھل بیچنا درست ہے یا نہیں؟
3723 مناظردریافت طلب امر یہ ہے کہ : ہمارے یہاں اطراف میں بہت سے گاوٴں قصبے نرمدا ندی پر بن رہے ?باندھ? کی وجہ سے ڈوب کے دائرے میں آرہے ہیں ،انمیں بہت سے گاوٴوں میں مساجد بھی ڈوبینگی ،اور قبرستان وغیرہ بھی۔ اب دریافت یہ کرنا ہے کہ : (۱) سرکار معاوضہ کے طور پر جس طرح نقد رقم اور جائداد ،زمینوں اور مکانات کے مالکان کو دیتی ہے؛اسی طرح مساجد کے عوض میں زمین اور اسکی لاگت کے بقدر نقدی بھی دے رہی ہے ؛ آیا یہ مسجد کا معاوضہ لیناجائز ہے؟ (۲) مسجد کے عوض میں سرکار نے جو زمین دی ہے اسکو کسی ضرورت و مصلحت سے بدلا جا سکتاہے؟ (۳) ایسی ہی ایک بستی میں قبرستان ڈوبنے والی اراضی میں شامل ہے ، اسکے آدھے حصہ میں قبریں ہیں اور آدھا حصہ خالی ہے ، اسی قبرستان میں تقریباً 4فٹ نیچے بالو ریت کا خزانہ شروع ہوتا ہے اس کے اطراف کے پورے علاقے میں ریت کی کھُدائی چل رہی ہے ؛جو بہر حال قبرستان کے جوانبِ اربعہ پر اثر انداز ہوگی، اور قبرستان کا خاصہ حصہ بغیر چھیڑچھاڑکے بھی کٹ جائیگا۔ اس ریت کی قیمت کا تخمینہ ۲۵/ لاکھ سے زائد ہے ۔جو مستقبل میں اہل اسلام کی ضروریات میں مستعمل ہو سکتا ہے? (الف)کیا اس ریت کو کھُدوا کر بیچنا جائز ہے ؟ (ب) بصورت جواز اسکی رقم کے مصارف کیا ہونگے؟ (ج) بصورت جواز اگر یہاں سے کچھ ہڈیاں وغیرہ نکلتی ہیں تو انہیں کہاں دفن کیا جائے ؛جبکہ ابھی دوسرا کوئی مستقل قبرستان اَلاٹ نہیں ہواہے۔ (۴) مسجد کے مکان میں ایک کرائے دار سے کچھ کرایہ بڑھانے کو کہا گیا ، نہ ماننے پر خالی کرنے کو کہہ دیا گیا، اس کرایہ دار نے ذمہ داران پر کیس دائر کردیا? (۱لف)اس کیس کی پیروی میں کیا سود کی رقم کرچ کی جا سکتی ہے ؟ (ب) کیا مسجد کے چندے کی رقم اس میں صرف کی جا سکتی ہے ؛ جبکہ اس مکان کی آمدنی امور مسجد ہی میں صرف ہوتی تھی۔
2158 مناظرمسجد كو دوسری جگہ شفٹ كرنا؟
4052 مناظرمیرے
گاؤں میں کئی مسجدیں تھیں پر سبھی چھوٹی تھیں۔ دس سال پہلے لب سڑک ایک مکان فروخت
ہورہا تھا جسے میں نے پچیس ہزار روپیہ میں طے کرلیا اور نیت کی کہ لوگوں کی رائے
سے ایک بڑی مسجد کی تعمیرکی جائے گی ۔ مشورہ کے بعد لوگوں کی رائے کے بعد فیصلہ
ہوا کہ یہاں مسجد نہ بنائی جائے لیکن کئی لوگ وہاں مسجد تعمیر کرنے کے لیے مجھ پر
زور دیتے رہے اور میں نے کام شروع کردیا اور اس زمین پر مکتب اور مسجد دونوں کی
نیت کرلی۔ زمین کی قیمت کچھ عوام کے چندہ سے کچھ اپنے ذریعہ سے کسی طرح ادا کرکے
مسجد کی بنیاد ڈال دی ۔ کئی سال ایسے ہی کام بند تھا پھر کچھ لوگ تیار ہوئے اور
چھپر ڈال کر نماز پانچ گانہ شروع ہوگئی اوربعد میں لوگوں کے چندے سے 40x12کی سیمنٹ کی چھاؤنی ڈال
دی گئی۔ اس کے بعد لکھنوٴ کی ایک کمیٹی کی مدد سے چھت کا انتظام ہوا۔ ان کے ذریعہ
دی گئی رقم سے مسجد تو تیار ہوگئی پر میں پچیس ہزار کا قرض دار ہوگیا۔ ........