• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 58487

    عنوان: کیا اس رقم کو میں کسی دوسرے مسجد کے لے دے سکتا ہوں۔

    سوال: میں فوج میں ھوں۔ میں جھاں پر رھتا تھا وہاں پر ہمارے کیمپس میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی۔ اس کے اخراجات کو سبھی مقتدی آپس میں چندہ کے زریعہ پورا کرتے تھے ۔ مگر کچھ عرسہ بعد سارے لوگ وہاں سے منتقل ہو کر اور کہیں چلے گے ۔ اب اس مسجد میں نماز پڑھنے والا اور اس کی دیکھ ریکھ کرنے والا کوئ نہیں ہے ۔ اس مسجد کی کچھ رقم میرے پاس جمع ہے ۔ میرا یہ سوال ہے کہ کیا اس رقم کو میں کسی دوسرے مسجد کے لے دے سکتا ہوں۔ اگر نہیں تو اس رقم کو کیا کروں۔

    جواب نمبر: 58487

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 258-258/Sd=6/14336-U اگر مذکورہ کیمپس کی مسجد بالکل غیر آباد ہوگئی ہے مسجد کے آس پاس کے لوگ دوسری جگہ منتقل ہوگئے ہیں، اس میں کوئی بھی نماز پڑھنے والا نہیں ہے اور اس مسجد کو مذکورہ چندے کی رقم کی کوئی ضرورت نہیں ہے، تو ایسی صورت میں آپ کے لیے اس رقم کو دوسری قریبی مسجد میں صرف کرنا جائز ہے۔ واضح رہے کہ جو مسجد غیر آباد ہوئی ہے، اگر وہ مسجد شرعی تھی تو وہ ہمیشہ ابد الآباد تک مسجد ہی رہے گی، اس لیے اس کو اچھی طرح محفوظ کردیا جائے، قال فی الہندیة: سُئِل شیخ الإسلام عن أہل لقریة إلی الخراب، ہل لواحد من أہل القریة أن یبیع الخشب بأمر القاضي ویمسک الثمن لیصرفہ إلی بعض المساجد إو إلی ہذا ا لمسجد؟ قال: نعم (الہندیة: ۲/۴۷۸، کتاب الوقف، الباب الثالث عشر في الأوقاف التي یستغني) وقال ابن عابدین: ولو ضرب المسجد وماحولہ، وتفرق الناس عنہ، لا یعود إلی ملک الواقف عند أبي یوسف، فیباع نقضہ بإذن القاضي، ویصرف ثمنہ إلی بعض المساجد (رد المحتار: ۴/۳۵۹) وقال: ومثلہ: حشیش المسجد وحصیرہ مع الاستغنئا عنہما فَیُصْر فُ وقف المسجد إلی أقرب مسجد (الدر المختار مع رد المحتار: ۴/۳۵۹، کتاب الوقف، دار الفکر وکذا في إمداد الفتاوی: ۲/۵۹۳، وفتاوی در العلوم: ۱۳/ ۴۷۹)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند