عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 55325
جواب نمبر: 55325
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1449-469/L=11/1435-U مسجد شرعی کی شان یہ ہے کہ وہ تحت الثری سے عنانِ سما تک مسجد ہی ہوتی ہے، یعنی اس کا تہہ خانہ اور بالائی منزلیں سب مسجد ہیں۔ وشرط کونہ مسجدًا أن یکون سفلہ وعلوہ مسجدًا لینقطع حق العبد عنہ قال تعالی: وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ تَعَالی فَلاَ تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا (الفقہ الحنفی في ثوبہ الجدید/ الأوقاف / ۲/ ۳۷۴/ دارالإیمان سہارنفور) لہٰذا مسجد شرعی کے تہہ خانے یا اس کے کسی حصے میں مستقلاً مدرسہ جاری کرنا از روئے شرع ناجائز ہے، بالخصوص ایسی حالت جب کہ تعلیم کے لیے مسجد کے علاوہ دوسری جگہ کا انتظام بھی ہے، البتہ اگر سردست کسی دوسری جگہ کا انتظام نہ ہو اور بچوں کی تعلیم فوت ہورہی ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں بڑے اور سمجھ دار لڑکوں کی کلاس جو مسجد کا پورا احترام کریں، عارضی طور پر مسجد میں جاری کی جاسکتی ہے ولا یجوز البیع والشراء فيا لمسجد وکذا کرہ فیہ التعلیم والکتابة والخیاطة بأجر․․․ واستثنی البزازي من کراہة التعلیم بأجر فیہ أن یکون لضرورة الخ (مجمع الأنہر مع الملتقی/ الصوم باب الاعتکاف/ ۱/۳۷۹، ط دار الکتب بیروت) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں۔ مسئلہ: بچوں کو قرآن شریف وغیرہ اجرت لے کر مسجد میں پڑھانا باتفاق ناجائز ہے اور بلا اجرت محض ثواب کے لیے بعض فقہاء نے اجازت دی ہے، لیکن بعض فقہاء اس کو بھی جائز نہیں سمجھتے کیوں کہ بحکم حدیث مسجد میں بچوں کو داخل کرنا ہی ناجائز ہے، کذا في حاشیة الاشباہ عن التمرتاشی (آداب المساجد) انتہی․ قال الحموي: وفي شرح الجامع الصغیر للتمرتاشي ولا یجوز تعلیم الصبیان القرآن في المسجد للمروي جنبوا مجانینکم وصبیانکم مساجدکم انتہی وہو صریح في عدم الجواز سواء کان بأجر أولا (حاشیة الأشباہ للحموي/ الفن الثالث / القول في أحکام المساجد ۳/۱۸۷/ ط: زکریا) آپ کے یہاں جو رواج چل پڑا ہے وہ درست نہیں، اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند