عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 176834
جواب نمبر: 176834
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 558-101T/D=07/1441
مسجد شرعی تحت الثری سے لے کر سریا یعنی آسمان کی فضا تک مسجد ہی کے حکم میں ہوتی ہے؛ لہٰذا مسجد شرعی کے تمام حصوں خواہ نچلا حصہ ہو یا اوپر والا حصہ مسجد کے علاوہ کسی دوسرے استعمال میں لانا صحیح نہیں ہے۔ وحاصلہ أنّ شرط کونہ مسجدا أن یکون سفلہ وعلوہ مسجدا لینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالی: وأنّ المساجد للہ (الجن: ۱۸) بخلاف ما إذا کان السرداب والعلوّ موقوفا لمصالح المسجد فہو کسرداب بیت المقدس ، ہذا ہو ظاہر الروایة ۔ (ردالمحتار، مطلب في أحکام المسجد: ۶/۵۴۷، ط: زکریا) البتہ اگر ابتداء بناء کے وقت ہی مسجد کے نیچے مصالح مسجد مثلا امام صاحب و موٴذن کی رہائش کے لیے کسی جگہ کو خاص کر لیا جائے تو بعض علماء کے نزدیک اس کی گنجائش ہے؛ لیکن استنجا خانہ بنانا وہاں جائز نہیں ہے۔ لو بنی فوقہ بیتا للإمام لا یضرّ ؛ لأنّہ من المصالح أمّا لو تمّت المسجدیّة ثمّ أراد البناء منع ولو قال: عنیت ذلک لم یصدّق ۔ (الدر المختار، الوقف: ۶/۵۴۸، ط: زکریا دیوبند)
بقي لوجعل الواقف تحتہ بیتا للخلاء ہل یجوز کما في مسجد محلّة الشحم فی دمشق؟ لم أرہ صریحا ۔ قال الرافعي: الظاہر عدم الجواز وما یأتي متنا لایفید الجواز ؛ لأنّ بیت الخلاء لیس من مصالحہ علی أنّ الظاہر عدم صحّتہ جعلہ مسجدا بجعل بیت الخلاء تحتہ کما یأتي أنّہ لو جعل السقایة أسفلہ لا یکون مسجدا فکذا بیت الخلاء ؛ لأنہما لیسا من المصالح ۔ (رد المحتار مع تقریرات الرافعي: ۲/۴۲۸) پس صورت مسئولہ میں امام و موٴذن صاحب کی رہائش میں تو کوئی حرج نہیں ہے؛ البتہ استنجا خانہ وہاں سے ختم کردیا جائے اور فیملی کا رہنا جس میں کبھی ناپاکی کی حالت ہوگی اور کبھی بچے گندگی کریں گے مناسب نہیں ہے۔
اسی طرح مسجد شرعی میں مستقل طور پر مدرسہ قائم کرنا صحیح نہیں ہے؛ البتہ عارضی طور پر یا مسجد کے تابع مکتب جاری کریں تو اس کی گنجائش ہے، بشرطیکہ آنے والے بچے مسجد کے آداب کو ملحوظ رکھیں اور مسجد میں گندگی وغیرہ نہ ہونے دیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند