• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 172239

    عنوان: مسجد کیلئے وقف شدہ مکان میں تصرف کرنا

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک چھوٹی سی بستی میں ایک مسجد ہے،مسجد میں پنجوقتہ نماز باجماعت ہوتی ہے،مگر مسجد کی مستقل کمیٹی یا امام مقرر نہیں ہے،سب بستی والے مشترکہ طور پر مسجد کا انتظام سنبھالتے ہیں، جسمیں زید بھی شامل ہے،زید کا ایک چھوٹا سا مکان مسجد کے متصل ہے، زید نے یوں کہا کہ میں اپنے مکان کو مسجد کیلئے وقف کرتا ہوں،لیکن اس مکان کی سطح مسجد سے کافی نیچے ہے،اس کو مسجد کے برابر لانے کیلئے اس میں بھرائی کرنی پڑے گی، جس پر کافی خرچہ آئے گا،اس لئے زید کے بیٹے چاہتے ہیں کہ اس موقوفہ مکان کی جگہ اپنے خرچے سے اپنے استعمال کیلئے کوئی کمرہ تعمیر کردیں تاکہ اس کی چھت مسجد کے فرش کے برابر لائی جاسکے،اور پھر اس پرمصالح مسجد کیلیے کوئی کمرہ بنادیا جا? ، اب دریافت طلب امر یہ ہے؛ ( 1)کہ کیازید کے اس طرح کہنے سے وقف پورا ہوجاتاہے؟ (2)کیا زید کے بیٹوں کا اس طرح کرنا جائز ہے 3کیا زید کے بیٹے اس کو بطور مسجد کے کرایہ دار استعمال کرسکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 172239

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1023-93T/sd=11/1440

    (۱) اگر زید نے مکان کی تشخیص و تعیین کرکے یہ کہدیا کہ میں اپنا مکان مسجد کے لیے وقف کرتا ہوں، تو اس کہنے سے وقف تام ہوگیا۔

    ثُمَّ إنَّ أَبَا یُوسُفَ یَقُولُ یَصِیرُ وَقْفًا بِمُجَرَّدِ الْقَوْلِ لِأَنَّہُ بِمَنْزِلَةِ الْإِعْتَاقِ عِنْدَہُ، وَعَلَیْہِ الْفَتْوَی۔ ( رد المحتار: ۳۳۸/۴)فالحاصل أن الترجیح قد اختلف والأخذ بقول أبی یوسف أحوط وأسہل ولذا قال فی المحیط ومشایخنا أخذوا بقول أبی یوسف ترغیبا للناس فی الوقف۔ ( البحر الرائق: ۲۱۲/۵)

    (۲) زید کے بیٹوں کے لیے مسجد کے لیے موقوفہ مکان میں کسی طرح کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔

     (۳) اگر مکان کرایہ پر دینے میں مسجد کا فائدہ اور مصلحت ہو، تو زید کے بیٹوں کو یہ مکان کرایہ پر دیا جاسکتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند