• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 169592

    عنوان: مسجد کا مکتب کے لیے وقف کردہ حصہ مسجد کی توسیع میں لینے کا حکم

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین وشرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں مسجد عالیشان کی دایں جانب کا کچھ حصہ جو کہ مکتب کی نیت سے وقف کیا گیا تھا جس کے اوپر امام صاحب کا حجرہ بھی بنا ہوا ہے اور یہ حصہ مسجد کی ملکیت میں ہی شامل ہے مسجدکی صفیں اس حصہ کااحاطہ کر لیتی ہیں اب اراکین کمیٹی مسجد کی توسیع میں اس حصہ کو داخل مسجد کرنا چاہتے ہیں کیا اس حصہ کو مسجد میں داخل کرنا درست یا نہیں؟ اگر درست ہے تو پھر اس میں اعتکاف رمضان صحیح ہے یا نہیں اگر درست نہیں تو جو لوگ اس حصہ میں جمعہ اور پنج وقتہ نمازیں ادا کر لیتے ہیں ان کی نمازیں درست ہوں گی یا نہیں اور ان کو مسجد کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ مدلل جواب دیں۔ نوٹ ، اس حصہ پر صرف حجرہ بنا ہوا بیت الخلا اور غسل خانہ الگ حصہ میں ہے ۔

    جواب نمبر: 169592

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:682-750/N=11/1440

    مسجدِ عالیشان کی دائیں جانب کا جو حصہ مکتب کے لے وقف کیا گیا ہے، اگر وہ مسجد ہی کی ملک ہے اور مکتب مسجد ہی کے تابع رکھ کر قائم کیا گیاہے اور اب مسجد کی توسیع میں اس حصہ کی ضرورت محسوس ہورہی ہے تو ایسی صورت میں اراکین مسجد کمیٹی کے مشورے واتفاق سے اس حصہ کو مسجد شرعی میں داخل کرلینے میں کچھ حرج نہیں ۔ اور جب وہ حصہ مسجد شرعی میں داخل کرلیا جائے گا تو اس میں اعتکاف وغیرہ سب درست ہوگااور اس میں نماز پڑھنے پر مسجد ہی میں نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا؛ البتہ اگر صرف نیچے کا حصہ داخلِ مسجد کریں گے تو صرف نیچے کا حصہ داخلِ مسجد ہوگا ورنہ اوپر نیچے سب داخلِ مسجد ہوگا اور پہلی صورت میں امام صاحب کا حجرہ باقی رکھنے میں کچھ حرج نہیں؛ جب کہ دوسری صورت میں امام صاحب کا حجرہ وہاں سے ختم کرنا ضروری ہوگا۔

    في الفتح: ولو ضاق المسجد وبجنبہ أرض وقف علیہ أو حانوت جاز أن یوٴخذ ویدخل فیہ اھ، زاد في البحر عن الخانیة: بأمر القاضي (رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۵۷۶، ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، کرہ تحریماً …البول والتغوط فیہ؛ لأنہ مسجد إلی عنان السماء (الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الصلاة باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا ۲:۴۲۸)،قولہ : ” إلی عنان السماء “ : بفتح العین، وکذا إلی تحت الثری کما فی البیري عن الإسبیجابي(رد المحتار)، لو بنی فوقہ بیتاً للإمام لا یضر؛ لأنہ من المصالح،أما لو تمت المسجدیة ثم أراد البناء منع ،ولو قال:عنیت ذلک لم یصدق ، تاترخانیة … فیجب ھدمہ ولو علی جدار المسجد الخ (الدر لمختار مع رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۸)،قولہ:”ولو علی جدار المسجد“ مع أنہ لم یأخذ من ھواء المسجد شیئاً اھ ط، ونقل فی البحر قبلہ: ولا یوضع الجذع علی جدار المسجد وإن کان من أوقافہ اھ (رد المحتار)، قولہ: ” ولا أن یجعل الخ“:…… قلت: وبھذا علم أیضاً حرمة إحداث الخلوات فی المساجد کالتي في رواق المسجد الأموي ولا سیما ما یترتب علی ذلک من تقذیر المسجد بسبب الطبخ والغسل ونحوہ (المصدر السابق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند