• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 168051

    عنوان: مسجد كی موقوفہ زمین كرایے پر دینا؟

    سوال: جو جگہ مسجد کے لیے وقف ہو یعنی مسجد کے فلاحی کاموں کے استمعال کے لیے ہو جسے رینٹ پر جگہ دے کر اس کے پیسے مسجد کے استعمال میں لے آے وغیرہ۔ ایسی جگہ کو جنازہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا ٹھیک ہے ؟ اسی طرح جنازہ مسجد سے باہر ہو اور جنازے کے ساتھ امام اور۔ کچھ لوگ باہر ہوں باقی سارے مسجد میں ہوں، کیا اسے جنازہ کی نماز ٹھیک ہے ؟ اسی طرح صرف جنازہ باہر ہو باقی سب امام سمیت مسجد کے اندر ہوں، کیا اسے بھی نماز جنازہ ٹھیک ہے ؟

    جواب نمبر: 168051

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:471-468/sn=6/1440

     جو جگہ مسجد کی آمدنی کے لئے وقف ہو اسے جنازہ گاہ کے لئے مختص کرلینا تو جائز نہیں ہے ؛البتہ اگروہ جگہ خالی ہو اور گاؤں والے اس میں کبھی عارضی طور پر جنازہ ادا کریں تو اس کی گنجائش ہے ؛لیکن بہتر ہے کہ گاؤں والے اس جگہ کو نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے لئے کرایے پر لے لیں اور ماہانہ یا سالانہ ایک متعارف کرایہ مسجد کو دے دیا کریں۔

    (۲) مذکور فی السوال دونوں صورتوں میں نماز جنازہ مسجد میں ادا کرنا شرعا مکروہ ہے ؛ ہاں اگر کوئی عذر ہو مثلا بارش وغیرہ تو پھر کوئی حرج نہیں ہے ، گنجائش ہے ۔

     (وکرہت تحریما) وقیل (تنزیہا فی مسجد جماعة ہو) أی المیت (فیہ) وحدہ أو مع القوم.(واختلف فی الخارجة) عن المسجد وحدہ أو مع بعض القوم (والمختار الکراہة) مطلقا خلاصة، بناء علی أن المسجد إنما بنی للمکتوبة، وتوابعہا کنافلة وذکر وتدریس علم، وہو الموافق لإطلاق .... حدیث أبی داود من صلی علی میت فی المسجد فلا صلاة لہ....(قولہ: وقیل تنزیہا) رجحہ المحقق ابن الہمام وأطال؛ ووافقہ تلمیذہ العلامة ابن أمیر حاج، وخالفہ تلمیذہ الثانی الحافظ الزینی قاسم فی فتواہ برسالة خاصة، فرجح القول الأول لإطلاق المنع فی قول محمد فی موطئہ: لا یصلی علی جنازة فی مسجد. وقال الإمام الطحاوی: النہی عنہا وکراہیتہا قول أبی حنیفة ومحمد، وہو قول أبی یوسف أیضا وأطال، وحقق أن الجواز کان ثم نسخ وتبعہ فی البحر، وانتصر لہ أیضا سیدی عبد الغنی فی رسالة سماہا نزہة الواجد فی حکم الصلاة علی الجنائز فی المساجد (قولہ: فی مسجد جماعة) أی المسجد الجامع، ومسجد المحلة قہستانی. (الدر المختار مع رد المحتار ۲/ ۲۳۹، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند