عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس
سوال نمبر: 16484
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک صاحب نے اپنے
مکان کو مسجد کے لیے وقف کیا ہے لیکن ابھی بھی وہ مسجد کے مالک ہیں جب کہ وہ خود
یہاں نہیں رہتے۔ جب محلہ والے کسی حافظ کو امام بنانے کے لیے رائے دیتے ہیں تو
واقف نے کہا کہ میں امام خود دوں گا ۔ کیا یہ وقف صحیح ہے؟ ابھی تک وہ مکان مسجد
کی کوئی شکل اختیار نہیں کیا ہے ۔کیا ایسی مسجد میں جمعہ، پانچ وقت کی نماز پڑھنا
صحیح ہے،جب کہ قصبہ میں او رکئی مساجد ہیں؟ کیا اس مکان کو مسجد کہا جاسکتاہے؟
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک صاحب نے اپنے
مکان کو مسجد کے لیے وقف کیا ہے لیکن ابھی بھی وہ مسجد کے مالک ہیں جب کہ وہ خود
یہاں نہیں رہتے۔ جب محلہ والے کسی حافظ کو امام بنانے کے لیے رائے دیتے ہیں تو
واقف نے کہا کہ میں امام خود دوں گا ۔ کیا یہ وقف صحیح ہے؟ ابھی تک وہ مکان مسجد
کی کوئی شکل اختیار نہیں کیا ہے ۔کیا ایسی مسجد میں جمعہ، پانچ وقت کی نماز پڑھنا
صحیح ہے،جب کہ قصبہ میں او رکئی مساجد ہیں؟ کیا اس مکان کو مسجد کہا جاسکتاہے؟
جواب نمبر: 16484
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب):1715=1553-11/1430
سوال واضح نہیں ہے، مکان کو کسی پہلے سے بنی ہوئی مسجد کے لیے وقف کیا ہے۔ یا مکان کو ہی نئی مسجد مستقل بنانے کے لیے وقف کیا ہے، اگر پہلے سے بنی ہوئی کسی مسجد کے لیے مکان وقف کیا ہے تو اس مکان کا وقف مسجد کی آمدنی کے لیے بالکل صحیح ہے، اس کی آمدنی مصالح مسجد میں خرچ کی جائے گی۔ اور اگر اس مکان کو نئی مسجد بنانے کے لیے وقف کیا ہے اور پھر اس میں نماز پڑھنے کی عام اجازت دیدی ہے تو یہ بھی وقف مسجد کے لیے درست ہوگیا۔ ہردو صورت میں مکان کی ملکیت واقف سے نکل کر اللہ کی ملکیت میں چلی گئی۔ اس میں پانچوں وقت کی نماز پڑھنا نماز جمعہ پڑھنا درست ہے۔ متولی کو امام مقرر کرنایا اہل محلہ کو امام مقرر کرنا جائز ہے، اس میں واقف کو دخل دینے کا کوئی حق نہ رہا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند