• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 161281

    عنوان: كرائے كی دكان كسی اور كو دے كر كرایہ وصول كرنا؟

    سوال: سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں منڈی دھنورا میں کلینک چلاتا ہوں، اسی مقصد کے لیے اب سے کچھ عرصہ پہلے میں نے جا مع مسجد کی مارکیٹ میں کرائے پر ایک دکان لی تھی میں نے اپنی ضرورت اور مرضی کے مطابق رجسٹریشن فرنیچر وغیرہ لگا دیا تھا اور وہاں پر مریض دیکھتا تھا اس کے علاوہ میں اپنے گھر پر ایک اور کلینک چلاتا ہوں میں اپنے زیر نگران ایک شخص کو جمع مسجد والے کلینک پر مریض دیکھنے کے لئے بیٹھا نا چاہتا ہوں اس صورت میں مندرجہ ذیل سوالات کا کیا ہیں جواب عنایت فرمائیں۔ سوال نمبر (1) اس صورت میں زیر نگران شخصی سے دکان اور سہولت کا کرایہ الگ الگ ہے تو کیا حکم ہے ؟ سوال نمبر2) وہ شخص مجھے طے شدہ جائز کرایہ دے تو کیا حکم ہے ؟ سوال نمبر3) وہ شخص مجھے مریض کے حساب سے طے شدہ رقم دے تو کیا حکم ہے ؟ ان سوالات کا تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں ۔عین نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 161281

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:974-786/sn=9/1439

    سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو آپ جامع مسجد مارکیٹ کی دکان پر بٹھانا چاہتے ہیں وہ آپ کا ملازم یا وکیل نہیں ہے بلکہ مستقل شخص ہے، جسے آپ اپنی دکان (جو آپ کے پاس کرایہ داری کے معاہدے کے تحت ہے) کرایہ پر دینا چاہتے ہیں تو اس صورت کا حکم یہ ہے کہ ایسا کرنے کی شرعاً آپ کے لیے گنجائش ہے، آپ اس شخص سے ماہانہ یا سالانہ طے شدہ کرایہ وصول کرلیا کریں، اگر یہ کرایہ اصل کرایہ سے زیادہ ہو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اگر کرایہ دار دکان وغیرہ پر اپنی رقم سے کچھ کام کرایا ہوتا ہے تو اس کے لیے زیادہ کرایہ پر کسی کو دینا شرعاً جائز ہوتا ہے اور وہ اضافی کرایہ بھی اس کے لیے حلال ہوتا ہے، صورتِ مسئولہ میں آپ نے چونکہ دکان میں فرنیچر وغیرہ لگایا ہے؛ اس لیے آپ کے لیے اضافی کرایہ کے ساتھ کسی کو کرایہ پر دینا شرعاً جائز ہوگا، اور کرایہ کے مدمیں حاصل شدہ کل رقم آپ کے لیے مباح ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند