• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 155445

    عنوان: اپنے پاس جمع فنڈ سے امام کا خود تنخواہ لے لینا؟

    سوال: امام کو مقتدیوں نے 2000 ہزار روپیہ ماہانہ طے کیا ہے اور اب 7 ماہ کی تنخواہ نہی ملی ہے ، 14000 روپے امام کے مقتدیوں کے ذمہ ہوگئے ہیں امام نے تقاضا کیا ہے مقتدیوں سے مقتدی لا پرواہی برت رہیں ہیں۔ اب امام اخرا جات سے دو چار ہو کر امامت سے استعفی دے رہا مسجد کا فنڈ امام کے پاس جمع ہے حساب کرتے وقت اپنی تنخواہ اس میں سے کاٹ سکتا ہے کہ نہیں؟ جواب عنایت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 155445

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:76-69/N=2/1439

    صورت مسئولہ میں امام صاحب کے پاس مسجد کا جو فنڈ جمع ہے، اگر وہ مسجد کی کسی خاص ضرورت کے نام پر اکٹھا نہیں کیا گیا ہے؛ بلکہ مسجد کی عام ضروریات کے لیے اکٹھا کیا گیا ہے تو چوں کہ مسجد کی عام ضروریات میں امام وموٴذن کی تنخواہ بھی داخل ہے؛ اس لیے ایسی صورت میں اگر ذمہ داران مسجد یا عام مقتدی حضرات امام صاحب کی تنخواہ ناجائز طور پر روک رہے ہیں تو امام صاحب مسجد کے عام فنڈ سے ذمہ داران مسجد یا عام مقتدیوں کی اجازت کے بغیر بھی اپنی تنخواہ وصول کرسکتے ہیں، شرعاً اِس کی گنجاش ہے۔البتہ صرف اپنی تنخواہ کے بہ قدر لے اور ذمہ دارانِ مسجد کو مکمل حساب دے۔

    ویبدأ من غلتہ بعمارتہ ثم ما ھو أقرب لعمارتہ کإمام مسجد ومدرس مدرسة یعطون بقدر کفایتھم ثم السراج والبساط کذلک إلی آخر المصالح وتمامہ فی البحر (وإن لم یشترط الواقف) لثبوتہ اقتضاء (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۵۵۹- ۶۶۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، مستفاد:ومن لہ حظ في بیت المال وظفر بما ھو موجہ لہ، لہ أخذہ دیانة (المصدر السابق، کتاب الزکاة، باب العشر،۳:۲۷۹ )۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند