• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 152455

    عنوان: عید گاہ کی آمدنی مدرسہ میں استعمال کر سکتے ہیں

    سوال: ایک گاوں میں ایک عید گاہ ہے ، اس عید گاہ کی زمین پر عید گاہ کمیٹی نے چندہ کر کے کچھ دوکانیں تعمیر کرائی ہیں، اس کی آمدنی اچھی خاصی ہے ، لیکن فی الحال عید گاہ میں خرچ کا کوئی مصرف نہیں ہے ، عید گاہ پختہ ہے ، اس سے متصل ایک دینی مدرسہ ہے ، جو بہت ہی محتاج ہے ، گاوں کے اکثر لوگ چاہتے ہیں کہ عید گاہ کی دوکانوں کی آمدنی مدرسہ میں خرچ کیا جائے ، لیکن کچھ لوگ اس کی مخالفت کر رہے رہیں، شرعی طور پر عید گاہ کی دوکانوں کی آمدنی مدرسہ میں خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں ہے تو پھر اس آمدنی کا مصرف کیا ہوگا جب کہ عید گاہ میں کوئی کام نہیں ہے اور یہ آمدنی جمع ہوتی چلی جارہی ہے ۔ امید ہے جواب مرحمت فرماکر ممنون فرمائیں گے ۔

    جواب نمبر: 152455

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1006-957/sd=10/1438

    عیدگاہ اور مدرسہ دو الگ الگ وقف ہیں، لہذاعیدگاہ کی دوکانوں کی آمدنی مدرسہ میں خرچ کرنا درست نہیں ہے ، اگر عیدگاہ میں ابھی ضرورت نہیں ہے ، تو آئندہ کے لیے رقم محفوظ کر لی جائے اور اگر عیدگاہ میں آئندہ بھی رقم صرف کرنے کی ضرورت نہ ہو، تو اس کی وضاحت کر کے دوبارہ سوال کریں ۔

    شرط الواقف کنص الشارع أی فی المفہوم والدلالة ووجوب العمل بہ۔ (الدر المختار، کتاب الوقف / مطلب فی قولہم شرط الواقف کنص الشارع، و۶۴۹زکریا، وکذا فی الأشباہ والنظائر، کتاب الوقف / الفن الثانی، الفوائد: ۲/۱۰۶إدارة القرآن کراچی، تنقیح الفتاویٰ الحامدیة ۱/۱۲۶المکتبة المیمنیة مصر)وکذا الرباط والبئر إذا لم ینتفع بہما، فیصرف وقف المسجد والرباط والبئر والحوض إلی أقرب مسجد أو رباط أو بئر أو حوض۔ (الدر المختار) وفی شرح الملتقیٰ: یصرف وقفہا لأقرب مجانس لہا الخ۔ (رد المحتار، کتاب الوقف / مطلب فیما لو خرب المسجد أو غربہ) مستفاد : امداد الفتاوی : ۵۷۶/۲تا ۵۸۲ )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند