• عبادات >> اوقاف ، مساجد و مدارس

    سوال نمبر: 148127

    عنوان: وقف کی زمین کا حکم

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں. . ایک صاحب نے مسجد کے وقف کی زمین کے پاس گھر تعمیر کی. ... پھر کچھ دنوں بعد گھر کی توسیع کی اور اس میں وقف کی زمین کا بھی کچھ حصہ شامل کر لیا، اب وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس مسجد کی(جس کی زمین انہوں نے گھر میں داخل کیا) اسکے کچھ تعمیری کام انہوں نے کرایا ہے ..تو وہ اسکا بدل ھو جا ئے گا.... (۱)تو کیا ان کی بدل کی نیت کرنا شرعا قابل قبول ہے ؟ (۲)یا اس زمین کے بدلہ میں کوئی دوسری زمین دینا ہوگا ؟ (۳)یا گھر توڑ کر زمین خالی کرنا ہوگا، یا کوئی اور صورت ہے ؟ برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں۔نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 148127

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 456-441/Sn=5/1438

    (۱، ۲، ۳) اگر یہ بات سچ ہے کہ مذکور فی السوال شخص نے مسجد پر موقوفہ زمین کا کچھ حصہ اپنے گھر میں شامل کرلیتا ہے تو اس نے ایک ناجائز اور حرام کام کا ارتکاب کیا، اس شخص پر ضروری ہے کہ جتنی زمین گھر میں شامل کی ہے پوری زمین مسجد کے حوالے کرے، چاہے اس کے لیے جو بھی طریقہ اختیار کرنا پڑے، یہ شخص نہ تو اپنے کام (جو اس نے مسجد میں کرایا ہے)کے بدلے میں یہ زمین رکھ سکتا ہے اور نہ اس کے بدلے دوسری زمین دینا کافی ہوگا؛ کیوں کہ وقف شدہ زمین ملکِ خدا ہوتی ہے، اس میں بیع، ہبہ یا کوئی دوسرا تصرف جو اس نوع کا ہو مثلاً تبادلہ شرعاً جائز نہیں ہے۔ (الوقف) ہو حبسہا علی حکم ملک اللہ تعالیٰ وصرف منفعتہا علی من أحبّ (درمختار) وفي رد المحتار: قدر لفظ حکم لیفید أن المراد أنہ لم یبق علی ملک الواقف ولا انتقل إلی ملک غیرہ، بل صار علی حکم ملک اللہ تعالی الذی لا ملک فیہ لأحد سواہ․ (درمختار مع الشامي: ۶/ ۵۲۲، ۵۲۱، ط: زکریا) وفیہ (ص: ۵۳۹) فإذا تمّ ولزم لا یُمٴلَکُ ولا یُمَلَّکُ ولا یعار ولا یُرہَن الخ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند