• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 69443

    عنوان: میں سورة بقرہ آیت نمبر 62کی وضاحت چاہتاہوں

    سوال: میں سورة بقرہ آیت نمبر 62کی وضاحت چاہتاہوں۔ میں نے اس کا تمل ترجمہپڑھا ہے کہ ؛ ”یقینا جو ایمان والے ہیں اور جو یہودی ،عیسائی اور صائبین ہیں، جو بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہے اور نیک عمل کرتاہے تو اس کا اجر اللہ کے پاس ہے ، انہیں کوئی خوف نہیں ہے اور نہ کوئی دکھ ہے“۔ اس کے مطابق کیا مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے؟ بلکہ اللہ اور قیامت پر ایمان لانا چاہئے اور نیک عمل کرنا چاہئے اور جو نیک عمل کرے گا اس کو اس کا اجر ملے گا حتی کہ یہودی، عیسائی اور صائبین کو بھی ۔

    جواب نمبر: 69443

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1451-1404/L=12/1437

    اس آیت کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ان مختلف فرقوں میں سے جو شخص پوری اطاعت اعتقاد اور اعمال میں کرے گا خواہ وہ پہلے سے کیسا ہی ہو ہمارے یہاں مقبول اور اس کی خدمت مشکور ہے اور ظاہر ہے کہ بعد نزول قرآن کے پوری اطاعت محمدی یعنی مسلمان ہونے میں منحصر ہے مطلب یہ ہوا کہ جو مسلمان ہو جاوے گا مستحق اجرو نجات اخروی ہوگا۔
    دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان مختلف فرقوں میں اپنی اپنی شریعت کے زمانے میں جو شخص دین حق پر علماً عملاً قائم تھا وہ ماجور اور ناجی ہوگا، باقی اب شریعت محمدیہ سے اور سب منسوخ ہوگئے۔ بیان القرآن: ۱/۴۳ ۔ ”إنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا ․․․․․ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ الخ أی أحدث من ہذہ الطوائف إیمانا باللہ تعالی وصفاتہ وأفعالہ والنبوات وبالنشأة الثانیة علی الوجہ اللائق، وأتی بعمل صالح حسبما یقتضیہ الإیمان بما ذکر ․․․․ ومنہم من فسرہا بمن کان منہم فی دینہ قبل أن یفسخ مصدقا بقلبہ بالمبدأ والمعاد عاملا بمقتضی شرعہ فیعمّ الحکم المخلصین من أمة محمد والمنافقین الذین ماتوا والیہود والنصاری الذین ماتوا قبل التحریف والنسخ“۔ روح المعانی: ۱/۴۴۱۔
    خلاصہ کلام یہ ہوا کہ جو شخص یہود و نصاری میں سے فسخ و تحریف سے پہلے انتقال کر گیا اور اس کے ایمان و اعمال صحیح تھے تو وہ ماجور و ناجی ہوگا البتہ شریعت محمدیہ کے آنے سے پہلے ان کے انتقال کرنے کی وجہ سے وہ اسلام کے مکلف نہیں ہوئے اور اب بعد نزول شریعت محمدیہ کے سب پر اسلام کو قبول کرنا اور شریعت محمدیہ کو ماننا لازم ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند