• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 65432

    عنوان: سورة حج کے دوسرے سجدہ کے بارے میں وضاحت فرمائیں

    سوال: براہ کرم، سورة حج کے دوسرے سجدہ کے بارے میں وضاحت فرمائیں، کیوں کہ کچھ لوگ یہاں سجد ہ کرتے ہیں اور اس بارے میں حضرت عامر بن عقبہ کی حدیث بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سجدہ کیوں نہیں کرسکتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس اس بارے میں کوئی حدیث ہے؟

    جواب نمبر: 65432

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 787-814/N=9/1437

     

    (۱، ۲) : احناف کے نزدیک آیت سجدہ کی تلاوت پر سجدہ تلاوت واجب ہوتا ہے جب کہ امام شافعیوغیرہ کے نزدیک سجدہ تلاوت صرف سنت ہے، واجب نہیں (تحفة الالمعی ۲: ۴۵۳)۔ اور وجوب کے لیے ایسی دلیل چاہئے کہ قطعی الثبوت اورظنی الدلالة یا ظنی الثبوت اور قطعی الدلالة ہو (رد المحتار، کتاب الطھارة، أرکان الوضوء، ۱: ۲۰۷، وأول کتاب الحظر والإباحة، ۹: ۴۸۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند) اور سورہ حج کے دوسرے سجدے کے متعلق اس طرح کی کوئی دلیل نہیں ہے؛ اس لیے احناف کے نزدیک سورہ حج کا دوسرا سجدہ، سجدہ تلاوت نہیں ہے؛ بلکہ اس سجدے سے نماز کا سجدہ مراد ہے؛ کیوں کہ سجدے کے ساتھ رکوع کا ذکر ہے اور قرآن کریم میں دوسری جگہوں میں جہاں بھی سجدے کے ساتھ رکوع کا ذکر آیا ہے، وہاں نماز ہی کا سجدہ مراد ہے، تلاوت کا سجدہ مراد نہیں ہے۔ حضرت ابی بن کعبنے وہ سجدے شمار فرمائے جو انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے اور آپنے سورہ حج کا صرف ایک سجدہ شمار فرمایا (بدائع الصنائع، کتاب الصلاة، فصل في بیان السجدات التي فی القرآن، ۲: ۴، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) ، اس سے معلوم ہوا ہے کہ سورہ حج میں سجدہ تلاوت صرف ایک ہے، دو نہیں، حضرت عبد اللہ بن عباسنے فرمایا: سورہ حج میں پہلا سجدہ عزیمت ہے اور دوسرا برائے تعلیم ہے، یعنی: نماز کا سجدہ ہے (إعلاء السنن ۷: ۲۴۱، ۲۴۲عن شرح الإمام الطحاوي) ، اور حضرت عبد اللہ بن عمرنے فرمایا: سورہ حج کا سجدہ تلاوت پہلا ہے اور دوسرا سجدہ نماز کا سجدہ ہے (بدائع الصنائع، کتاب الصلاة، فصل في بیان السجدات التي فی القرآن، ۲: ۴)۔ اور حضرت عقبہ بن عامرکی جس روایت کاآپ نے حوالہ دیا، یہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے، چناں چہ امام ترمذینے فرمایا: اس کی سند قوی نہیں ہے، اورشوکانی نے نیل الاوطار میں فرمایا: اس کی سند میں دو راوی ضعیف ہیں؛ ایک: ابن لہیعہ اور دوسر: ا مشرح بن ہاعان۔ اور حاکم نے فرمایا: اس کی سند میں ابن لہیعہ کا تفرد ہے۔ نیز علما نے فرمایا: حضرت عقبہ بن عامرکی روایت میں مطلق دو سجدوں کا ذکر ہے، اس میں اس کی صراحت نہیں ہے کہ دونوں سجدے سجدہٴ تلاوت ہیں؛ اس لیے قرآن کریم کے دیگر استعمالات کے مطابق اگر دوسرے سجدے سے نماز کا سجدہ مراد لیا جائے تو اسے قطعی طور پر حدیث کے خلاف نہیں کہا جاسکتا۔ الحاصل جو لوگ سورہٴ حج کے دوسرے سجدے سے سجدہٴ تلاوت مراد ہونے پر حضرت عقبہ بن عامرکی روایت سے استدلال کرتے ہیں، احناف کے نزدیک ان کا استدلال درست نہیں۔ اور ہم نے حضرت عبد اللہ بن عباسکا جو قول پیش کیا، وہ ان سے سند حسن سے مروی ہے، اور وہ نہایت واضح ہے، اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمرکا قول بھی؛ اس لیے حضرات احناف کے یہاں سورہ حج میں دوسرے سجدے سے نماز کا سجدہ مراد ہے، تلاوت کا سجدہ مراد نہیں ہے (والتفصیل في بذل المجہود۶: ۶۵، ط: دار البشائر الإسلامیة دمشق، و إعلاء السنن ۷: ۲۴۱- ۲۵۴، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة کراتشي)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند