عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم
سوال نمبر: 608131
قرآن میں ہے: ’’بری عورتیں برے مردوں کے لیے اور برے مرد بری عورتوں کے لئے ہیں‘‘ اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟
عنوان : ایک پوسٹ فیس بگ پر پڑھا اس کو بارے میں جانا ہے صیح ہے یا نہیں اس طرح کہینا
سوال : دو ایسے نظریئے جن کا مطلب ہمارے ہاں سراسر غلط لیا جاتا ہے ۔
نمبر#1: بری عورتیں برے مردوں کے لیے اور برے مرد بری عورتوں کے لئے ہیں۔
نمبر#2: زنا ایک قرض ہے جو آپ کو گھر سے چکانا پڑے گا خاص کر بیٹی کی صورت میں۔ ہمارے ہاں سورہ نور کی آیت نمبر 26 کا ترجمہ سراسر غلط لیا جاتا ہے "اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰت" بدکار عورتیں بدکار مردوں کے لئے اور بدکار مرد بدکار عورتوں کے لئے ہے پہلی بات یاد رکھیں کہ قرآن مجید کی کسی بھی آیت کی تفسیر اس کے سیاق و سباق کے بغیر نہیں کی جا سکتی اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں آدھا سچ بتانے کی عادت ہے ۔ اگر سورہ نور کی اس آیت کے آگے اور پیچھے کی آیت کو پڑھا جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ یہاں پر آخرت کی بات ہو رہی ہے نہ کہ دنیا کی کہ آخرت میں بری عورتیں برے مردوں کے ساتھ جہنم میں ہوں گی اور اچھی عورتیں اچھے مردوں کے ساتھ جنت میں ہوں گی۔ اگر دنیا کی بات کریں تو دنیا میں تو فرعون کی بیوی مسلمان تھی اور حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی کافر تھی۔ لہذا اس آیت کا ترجمہ ٹھیک سے سمجھ لیں کہ یہاں آخرت کا ذکر ہورہا ہے نہ دنیا کا۔ دوسری بات ہمارے ہاں امام غزالی کا ایک قول بڑا مشہور کہ زنا ایک قرض ہے جسے آپ کو گھر سے چکانا پڑے گا اور خاص کر بیٹی کی صورت میں اور یہ انتہائی گھٹیا اور سراسر غلط بات ہے بلکہ یہ امام غزالی کا قول ہے ہی نہیں اور اگر امام غزالی کا قول بالفرض ہے بھی صحیح تو حرفِ آخر تو نہیں کیوں کہ ہمارے لئے ہمارے نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم زیادہ معتبر ہیں امام غزالی سے اور ہمارے نبی سے ایسی کوئی حدیث روایت بھی نہیں۔ ایک بات بتائیں اگر آپ زنا کریں گے تو اس میں آپکی بیٹی کا کیا قصور ہے ؟ آپ کے گناہ کی سزا آپ کی بیٹی کو کیوں ملے گی؟ اللہ کو پتہ تھا کہ میرے بندے دنیا میں مسئلہ پیدا کریں گے اس طرح کی من گھڑت باتیں کرکے تو اللہ نے قرآن مجید میں اس بات کی دو دفعہ وضاحت کی. اللہ پاک ایک دفعہ بھی واضح کر دیتا تو کافی تھا اللہ نے لیکن دو دفعہ وضاحت کی کہ کوئی ابہام نہ رہے وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرَیٰ کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (سورہ فاطر، 18) اور اَ لَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (سورہ النجم، 38)
جواب نمبر: 608131
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 571-71T/B=05/1443
(۱) آیت کریمہ ”الخبیثٰت للخبیثین والخبیثون للخبیثٰت“ میں ایک قدرتی قانون کا بیان ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسانی طبائع میں طبعی طور پر جوڑ پیدا کر رکھا ہے، گندی اور بدکار عورتیں بدکار مردوں کی طرف اور گندے بدکار مرد گندی بدکار عورتوں کی طرف رغبت کیا کرتے ہیں، اسی طرح پاک صاف عورتوں کی رغبت پاک صاف مردوں کی طرف ہوتی ہے، اور پاک صاف مردوں کی رغبت پاک صاف عورتوں کی طرف ہوا کرتی ہے، اور ہر ایک اپنی اپنی رغبت کے مطابق اپنا جوڑ تلاش کرتا ہے، اور قدرةً اس کو وہی مل جاتا ہے، اس عام عادت کے کلیہ اور ضابطہ سے واضح ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام جو دنیا میں پاکی اور صفائی ظاہری و باطنی میں مثالی شخصیت ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالی ان کو ازواج بھی ان کے مناسب عطا فرماتے ہیں، اور حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیبیوں کے بارے میں جو قرآن کریم میں کافر ہونا مذکور ہے، تو ان کے متعلق یہ بھی ثابت ہے کہ کافر ہونے کے باوجود فسق و فجور میں مبتلا نہیں تھیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ما بغت إمرأة نبي قط۔ یعنی کسی نبی کی عورت نے کبھی زنا نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی کی بیوی کافر ہوجائے اس کا تو امکان ہے، مگر بدکار فاحشہ ہوجائے یہ ممکن نہیں ہے۔ (مذکورہ تفسیر کے لیے دیکھیں: معارف القرآن: 6/384، ط: نعیمیہ، تفسیر مظہری: 6/369، ط: زکریا، دیوبند، تفسیر ابن کثیر: 4/528، ط: زکریا دیوبند، انوار البیان فی کشف اسرار القرآن: 4/72، ط: مکتبہ طیبہ دیوبند) مذکورہ تمام تفاسیر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت کا تعلق دنیا سے ہے، اور آیت کا سیاق بھی اس پر دلالت کرتا ہے، اس لیے کہ ماقبل میں واقعہٴ افک کا بیان ہوا ہے، جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گئی ہے، اس آیت کریمہ میں بھی ان کی برأت و پاکدامنی کی طرف اشارہ ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام انبیاء کے سردار ہیں، ان کو ازواج مطہرات بھی اللہ تعالی نے پاکی اور صفائی ظاہری اور اخلاقی برتری میں آپ کی شایان شان عطا فرمائی ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان سب میں ممتاز ہیں، ان کے بارے میں شک و شبہ وہی کرسکتا ہے جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ ہو، اس آیت کا آخرت سے تعلق قرار دینا معتبر کتب تفاسیر کے خلاف ہے۔
(۲) زنا ایک قرض ہے، یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا مقولہ ہے، جو دیوان شافعی، ص: 84، ط: موٴسسة علاء الدین، میں موجود ہے۔ الفاظ اس کے یہ ہیں: عفوا تعف نساوٴکم في المحرم، وتجنبوا ما لا یلیق بمسلم إن کان الزنا دین فإن أقرضتہ، کان الوفاء من أہل بیتک فاعلم۔ ان اشعار کا مضمون صحیح ہے، حدیث مبارک سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ المعجم الکبیر للطبرانی: 3/171، پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے جس میں ارشاد ہے: عفوا تعف نساوٴکم جہاں تک آیت قرآنی ”ولا تزر وازرةٌ وزر أخریٰ“ کی بات ہے تو اس کا تعلق آخرت سے ہے وہاں پر کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (انوارالبیان فی کشف اسرار القرآن: 4/489، ط: مکتبہ طیبہ دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند